بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کا چیک اپنے اکاؤنٹ میں ڈال کر کم پیسے واپس کرنا


سوال

 زید کے پاس چار  لاکھ کا چیک ہے اور زید نے وہ چیک بکر  کو دے  دیا اس شرط پر کہ بکر  اس کو اپنے اکاؤنٹ میں جمع کرا کر زید کو 390000 دے گا ، زید کی مجبوریاں ہے، کیوں کہ اس کا اکاؤنٹ نہیں ہے،  کیا یہ سود ہے؟ یا اس کا گناہ ہے؟

جواب

چیک کو  کم قیمت  میں بیچناخریدنا   جائز نہیں ہے، اس  لیے کہ  چیک درحقیقت  قرض  یا دین  کی رسید ہے،  جس کو کم یا زیادہ قیمت میں بیچا نہیں جاسکتا۔

البتہ اگر   بکر  اس کام کے لیے پہلے سے زید سے  متعینہ اجرت طے کرلے کہ اس کام  (چیک لے جاکر بینک میں رسید/ سلپ بھرنے اور اپنے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہونے کے بعد بذریعہ چیک یا کارڈ رقم نکالنے کے عمل اور بھاگ دوڑ) کے میں اتنے پیسے لوں گا تو ایسی صورت میں یہ علیحدہ معاملہ ہوگا ،اس صورت میں بکر    زید کو اس چیک کے  چار لاکھ پورے ادا کرے گا اس میں کمی بیشی کی اجازت نہیں ہوگی، اور جو معاوضہ   اس محنت کا آپس میں طے ہوا ہےوہ  زید  سے وصو ل  کرے تو اس کی گنجائش ہوگی۔

"تنقیح الفتاوی الحامدیة"میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض، ج:۱ ؍ ۵۰۰ ، ط:قدیمی)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام."

(کتاب البیوع، فصل في القرض، ج:۵ ؍ ۱۶۶ ، ط:سعید )

فتاویٰ ہندیہ  میں  ہے:

"صورة قفيز الطحان أن يستأجر الرجل من آخر ثوراً ليطحن به الحنطة على أن يكون لصاحبها قفيز من دقيقها أو يستأجر إنساناً ليطحن له الحنطة بنصف دقيقها أو ثلثه أو ما أشبه ذلك فذلك فاسد، والحيلة في ذلك لمن أراد الجواز أن يشترط صاحب الحنطة قفيزاً من الدقيق الجيد ولم يقل من هذه الحنطة، أو يشترط ربع هذه الحنطة من الدقيق الجيد؛ لأن الدقيق إذا لم يكن مضافاً إلى حنطة بعينها يجب في الذمة والأجر كما يجوز أن يكون مشاراً إليه يجوز أن يكون ديناً في الذمة، ثم إذا جاز يجوز أن يعطيه ربع دقيق هذه الحنطة إن شاء. كذا في المحيط."

(کتاب الإجارۃ، الباب الخامس عشر في بیان ما یجوز من الإجارۃ و ما لایجوز، ج: 4، صفحہ: 444، ط:رشیدیۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200301

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں