بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی چیز کو بیچنے کے لیے مختلف ریٹ رکھنا


سوال

1۔اگر میں کوئی چیز  سو روپے میں ادھار پر بیچتا ہوں تو کیا میں ایسی پالیسی بنا سکتا ہوں  کہ اگر کوئی کسٹمر مجھے ساٹھ دن کے اندر پیسے ادا کرے تو اس کو پندرہ فیصد رعایت دی جائے گی، اگر وہ تیس دن کے اندر پیسے ادا کرے  تو اس کو بیس فیصد رعایت دی جائے گی، اگر وہ پندرہ دن میں پیسے ادا کرے  تو پچیس فیصد رعایت دی جائے گی، اگر ایک دن میں پیسے ادا کرے   تو تیس فیصداس کو رعایت دی جائے گی۔

2۔ہمارا رنگ (پینٹ) بنانے کا کام ہے، ہم رنگ کے ڈبے میں ایک کارڈ ڈال دیتے ہیں جس کو رنگ ریز نکال لیتا ہے اور وہ یہ کارڈ دکان دار کو دے دیتا ہے، دکان دار اس رنگ ریز کو 250 روپے دے دیتا ہے، پھر دکان دار وہ کارڈ ہمیں دے دیتا ہے اور ہم اس کو 250 روپے دے دیتے ہیں اور اس کے ساتھ دس فیصد مزید رعایت دی جاتی ہے یعنی 25 روپے اور اس کے اوپر جو رقم  باقی ہوتی ہے اس میں سے 275 روپے کاٹ دیے جاتے ہیں، ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

1۔ جس مجلس میں خریدو فروخت کی جا رہی ہو  اگر اسی مجلس میں کسی ایک شق کو طے کر لیا جائے، (مثلاً: یوں طے کر لیا جائے  کہ پیسوں کی ادائیگی  ساٹھ دن میں ہو گی اور پندرہ فیصد رعایت دی جائے گی) تو ایسی پالیسی بنانا اور اس طرح معاملہ کرنا درست ہو گا۔

2۔ اگر رنگ کروانے والے نے رنگ ریز کو کام ٹھیکہ پر دیا ہے اور رنگ کا ڈبہ بھی اسی نے خریدا ہے تو اس کارڈ کا مالک وہی رنگ ریز ہو گا اور اس کا دکان دار سے 250 روپے لینا درست ہو گا، اور اگر رنگ کروانے والے  مالک نے وہ رنگ کا ڈبہ خود خریدا ہے تو وہی اس کارڈ کا مالک ہو گا اور رنگ ریز کا اس کارڈ کو لے لینا جائز نہیں ہو گا۔ ہاں اگر رنگ کروانے والا خود ہی وہ کارڈ اس رنگ ریز کو دے دے تو اس کا لینا درست ہو گا اور اس کا دکان دار سے 250 روپے لینا درست ہو گا۔

لیکن دکان دار جب 250 روپے رنگ ریز یا اصل مالک کو دیتا ہے تو وہ کمپنی کی طرف سے بطورِ قرض  دے رہا ہوتا ہے اور کمپنی اس کی مقروض ہو جاتی ہے،پھر اس کے لیے  کمپنی سے صرف اتنی ہی رقم لینا درست ہو گا، جتنی رقم اس نے آگے دی ہے، یعنی 250 روپے، اس سے زائد  رقم لینا درست نہ ہو گا ، اگر زائد رقم لے گا تو وہ سود ہونے کی وجہ سے نا جائز ہو گی، اور سوال میں ذکر کردہ تفصیل کے مطابق دکان دار کو مزید دس فیصد رعایت کے طور پر 25 روپے دیے جاتے ہیں، آپ کا دکان دار کو قرض کی ادائیگی کے وقت یہ اضافی رقم دینا اور دکان دار کا اس کو وصول کرنا جائز نہیں۔

اگر آپ دکان دار کو اضافی بونس کے طور پر کچھ دینا چاہتے ہیں تو اس معاملے کو کارڈ کی رقم کے ساتھ جوڑنے کی بجائے کسی اور کارکردگی کے ساتھ جوڑ دیں، مثلاً: جو دکان دار آپ کے تیار کردہ رنگ کے دس ڈبے بیچے گا اسے آپ کی طرف سے اتنا انعام ملے گا۔

مذکورہ تمام تفصیل اس وقت ہے جب رنگ کے ڈبہ میں کارڈ ڈالنے کے باوجود رنگ معیاری ہو اس کی کوالٹی ہلکی نہ ہو، اگر رنگ غیر معیاری ہو اور اسے بیچنے کے لیے یہ تدبیر اختیار کی جا رہی ہو تو ایسا کرنا  مطلقاً جائز نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143606200006

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں