بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی سے اس کی آمدنی کا سوال پوچھنا


سوال

 1- اگر کوئی شخص کاروباری آمدن کے بارے میں پوچھے اور بندا برا مان جائےتو جواب کیسے ہونا چاہیے؟

2 - کاروبار کے بارے میں اہم مشورے دیے جائیں ائمہ کے اقوال بھی ہوں۔

جواب

1- شریعت نے بے جا اور بے فائدہ سوال پوچھنے سے منع کیا ہے، نیز کسی سے اس کے ذاتی احوال پوچھنا بھی شرعاً و اخلاقاً پسندیدہ نہیں ہے۔

ہمارے معاشرہ میں چوں کہ کسی سے اس کی آمدنی کے بارے میں پوچھنے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا؛ اس لیے اگر یہ علم ہو کہ اس سوال سے سامنے والے کو ناگواری ہوگی تو اس قسم کے سوالات سے پرہیز کرنا چاہیے، اور اگر کوئی پوچھ لے تو سامنے والے کو اختیار ہے کہ وہ جواب دینا چاہے تو جواب دے دےاور اگر مناسب نہ سمجھے تو نرمی سے جواب دینے سے معذرت کر لے۔

حدیث میں وارد ہے: "عن  المغیرة بن شعبة رضي الله عنه قال: قال النبي صلی الله علیه وسلم قال: إنّ الله حرّم علیکم عقوق الأمهات، و وأد البنات، ومنعًا و هات، وکره لکم قیل و قال،وکثرة السؤال، و إضاعة المال". (صحيح البخاري،کتاب في الاستقراض و أداء الدیون، رقم:2408)
وقال محمد بن علان الشافعي في دلیل الفالحین:

"(وکثرة السؤال) ... السؤال عن المشکلات والمعضلات من غیر ضرورة، وعن أخبار الناس وحوادث الزمان، وسؤال الإنسان بخصوصه عن تفصیل أحواله فقد یکره ذلك". (دلیل الفالحین، ج:2 ص:186۔ ط:دار الفکر)

2- کاروبار کے سلسلے میں شرعی اعتبار سے جو مسئلہ دریافت کرنا ہو متعین کرکے وہ صورت لکھ کر ارسال کردیجیے، ان شاء اللہ تعالیٰ جواب ارسال کردیا جائے گا۔ اور اگر کاروباری ترقی کے اعتبار سے مشورہ چاہتے ہیں تو  کسی مخلص، دین دار، تجربہ کار تاجر سے مشورہ کرلیجیے۔ عمومی شرعی مسائل کے سلسلے میں اپنے ذاتی احوال بتا کر اپنے کسی قریبی عالم یا مفتی سے بالمشافہہ مشورہ کر لیجیے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200258

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں