بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کس وقت کے خواب سچے ہوتے ہیں؟


سوال

خواب کس وقت کے درست / سچے ہوتے ہیں کہ ان کی تعبیر  لی جائے؟ 

جواب

حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کے پچھلے پہر کا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے ۔(ترمذی ، دارمی )  پچھلے پہر سے مراد رات کا آخری حصہ ہے، جو عام طور پر دل و دماغ کے سکون کا وقت ہوتا ہے،  اس وقت اللہ تعالی کی خاص رحمتیں اور فرشتے نازل ہوتے ہیں، نیز  دعا ئیں قبول ہوتی ہیں، اس لیے اس حدیث کی رو سے اس وقت کا خواب زیادہ سچا ہوتا ہے۔

تاہم اس حدیث میں دن کے خواب کے سچے ہونے کی نفی نہیں ہے، بلکہ رات کے آخری پہر کے خواب کے زیادہ سچے ہونے کا ذکر ہے، چناں چہ دن کے خواب بھی سچے ہوسکتے ہیں، اور دن کے خواب کی تعبیر بھی ہوتی ہے۔  صحیح بخاری وغیرہ میں  مشہور واقعہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دن کے وقت اپنی امت کو بحری جہازوں پر جہاد کرتے ہوئے دیکھا، آپ ﷺ مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے۔۔۔ الخ

البتہ اصولی طور پر برا خواب دیکھنے میں آئے تو اس کو تذکرہ ہی نہ کیا جائے، اچھا خواب نظر آئے تو کسی سمجھ دار اور تعبیر کے فن میں مہارت رکھنے والے سے اس کا ذکر کیا جائے ؛ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  خواب پرندے کے پاؤں پر ہوتا ہے  جب تک اس (خواب یا اس کی تعبیر ) کو  بیان نہ کیا جائے، جب  خواب دیکھنے والا (یا کوئی مؤمن ) اس (خواب یا اس کی تعبیر) کو بیان کردے تو خواب واقع ہوجاتا ہے۔  راوی کا کہنا ہے کہ میری دانست میں آپ نے یوں بھی فرمایا: خواب کسی عاقل و سمجھ دار  یا محبت رکھنے والے کے سامنے ہی بیان  کرو۔(ترمذی)

اور اگر کوئی برا یا ڈراؤنا خواب دیکھے تو جیسے ہی آنکھ کھلے بائیں طرف تھتکار کر "أَعُوْذُ بِاللهِ مِنْ شَرِّ هذِهِ الرُّؤْیَا" پڑھ لینا چاہیے، اور یہ خواب کسی سے بیان نہیں کرنا چاہیے، یہ شیطان کی طرف سے شرارت ہوتی ہے، جس کا مقصد انسان کو پریشان کرنا ہوتاہے، حدیثِ پاک میں اس کا مذکورہ علاج بیان کیا گیاہے۔ (مسلم)

"١- عَنْ أبي سعيد عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : " أَصْدَقُ الرُّؤْيَا بِالْأَسْحَارِ ".(سنن التركذي :٢٢٧٤)
٢- عَنْ أبي رزين العقيلي قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " رُؤْيَا الْمُؤْمِنِ جُزْءٌ مِنْ أَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ، وَهِيَ على رجل طائر  مَا لَمْ يَتَحَدَّثْ بِهَا، فَإِذَا تَحَدَّثَ بِهَا سَقَطَتْ ". قَالَ : وَأَحْسَبُهُ قَالَ : " وَلَا يُحَدِّثُ بِهَا إِلَّا لَبِيبًا أَوْ حَبِيبًا ".(سنن الترمذي :٢٢٧٨)
٣- قوله : ( وهي ) أي رؤيا المؤمن ( على رجل طائر ) هذا مثل في عدم تقرر الشيء أي لا تستقر الرؤيا قرارا كالشيء المعلق على رجل طائر، ذكره ابن الملك . فالمعنى أنها كالشيء المعلق برجل الطائر لا استقرار لها . قال في النهاية : أي لايستقر تأويلها حتى تعبر ، يريد أنها سريعة السقوط إذا عبرت . كما أن الطير لايستقر في أكثر أحواله فكيف يكون ما على رجله ( ما لم يحدث )أي ما لم يتكلم المؤمن أو الرائي ( بها )أي بتلك الرؤيا أو تعبيرها ( فإذا تحدث بها سقطت ) أي تلك الرؤيا على الرائي يعني يلحقه حكمها . وفي رواية أبي داود قال : الرؤيا على رجل طائر ما لم تعبر فإذا عبرت وقعت . قلت هذه الرواية تدل على أن المراد بقوله ما لم يحدث ما لم يتكلم بتعبيرها . (تحفة الأحوذي)  
فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144012200898

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں