بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرنسی گرجانے کی وجہ سے اقالہ کرنا


سوال

 زید نے عمرو کو ایران میں کپڑا بیچ دیا اور کہا: جب کپڑے بیچ لو پھر پیسے ادا کرنا، اس وقت ایرانی  کرنسی تومان کی قدر بہت تھی، لیکن عمرو کپڑے بیچنے کے بعد ٹال مٹول سے کام لیتا رہا حتی کہ  ایران سے بھاگ کر افغانستان گیا؛ تاکہ زید اس سے پیسہ کا مطالبہ نہ کرے اور زید اس کو ڈھونڈتا رہا، لیکن اب چار سال کے بعد عمرو کہتا ہے: میں تیرا پیسہ دوں گا جب کہ تومان کی ویلیو بہت نیچے گرگئی ہے، اگر ایک لاکھ تومان پہلے 2500 روپے کاتھا مثلًا، اب 400 روپے کا ہے، اب زید کیا کرے اتنا بڑا نقصان اس کا ہورہاہے؟ کیا زید اسے اتنے کپڑے کا مطالبہ کرسکتا ہے جتنا اس نے عمرو کو بیچ دیا ہے؟

جواب

جب زید نے عمرو کو کپڑا بیچ دیا تو کپڑا زید کی ملکیت سے نکل کر عمرو کی ملکیت میں داخل ہو گیا اور عمرو کے ذمے ثمن کی ادائیگی لازم ہو گئی، پھر اگر اس وقت عمرو نے رقم کی ادائیگی نہ کی اور ایرانی کرنسی کی ویلیو گر گئی تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا، بلکہ عمرو کے ذمے اتنی ہی رقم کی ادائیگی لازم ہے جتنی معاملہ کے وقت طے ہوئی تھی اور چوں کہ بیع تام ہوچکی تھی اس لیے عمرو   کی رضامندی کے بغیر  اب وہ کپڑا واپس بھی نہیں کیا جا سکتا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (4 / 537):

"بقي هنا شيء وهو أنا قدمنا أنه على قول أبي يوسف المفتى به: لا فرق بين الكساد والانقطاع والرخص والغلاء في أنه تجب قيمتها يوم وقع البيع أو القرض إذا كانت فلوسا أو غالبة الغش، وإن كان فضة خالصة أو مغلوبة الغش تجب قيمتها من الذهب، يوم البيع على ما قاله الشارح، أو مثلها على ما بحثناه وهذا إذا اشترى بالريال أو الذهب، مما يراد نفسه، أما إذا اشترى بالقروش المراد بها ما يعم الكل كما قررناه، ثم رخص بعض أنواع العملة أو كلها واختلفت في الرخص، كما وقع مرارا في زماننا ففيه اشتباه فإنها إذا كانت غالبة الغش، وقلنا: تجب قيمتها يوم البيع، فهنا لايمكن ذلك؛ لأنه ليس المراد بالقروش نوعًا معينًا من العملة حتى نوجب قيمته."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200480

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں