بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرسی کے سامنے کسی چیز پر سجدہ کرنا


سوال

میری امی کو جوڑوں کا درد ہے، جس کی وجہ سے وہ نیچے بیٹھ کر نماز نہیں پڑھ سکتیں،  وہ کرسی پر بیٹھ کر نماز ادا کرتی ہیں،  گھٹنے سے تھوڑا اوپر جگہ بنائی ہوئی ہے، جس پر  جائے نماز رکھ کر سجدہ کرتی ہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ بیٹھ کر نماز پڑھنے والے سجدہ اشاروں سے کرتے ہیں۔ وہ جائے نماز کے اوپر سجدہ نہیں کر سکتے۔ برائے مہربانی راہ نمائی فرمائیں!

جواب

اگر کوئی شخص عذرِ حقیقی کی بنا پر کرسی پر نماز پڑھتا ہے (یعنی زمین پر سجدہ نہیں کرسکتا) تو  اس کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ اشارے سے سجدہ کرے، یعنی سجدے میں رکوع کے مقابلے میں زیادہ جھک جایا کرے؛ لہٰذا صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ زمین پر سجدہ کرنے پر قادر نہیں ہیں، اور ان کے سجدہ کرنے کے لیے کرسی کے آگے  جگہ بنائی ہے، جس پر جائے نماز رکھ کر وہ سجدہ کرتی ہیں، تو چوں کہ وہ مریض (معذور) ہیں، اس لیے اس طرح سجدہ کرنے سے ان کا سجدہ ادا ہوجائے گا۔

باقی یہ بات تو درست ہے کہ جو زمین پر سجدہ نہیں کرسکتا اس کے لیے اشارے سے سجدہ کرنے کی رخصت ہے، لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ وہ اشارے سے ہی سجدہ کرے؛ لہٰذا جو لوگ کہتے ہیں کہ جائے نماز پر سجدہ کرنا درست نہیں ہے، ان کا کہنا درست نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 98):

"(و لايرفع إلى وجهه شيئًا يسجد عليه) فإنه يكره تحريماً". 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 98):

"(قوله: فإنه يكره تحريماً) قال في البحر: واستدل للكراهة في المحيط بنهيه عليه الصلاة والسلام عنه، وهو يدل على كراهة التحريم اهـ وتبعه في النهر.
أقول: هذا محمول على ما إذا كان يحمل إلى وجهه شيئاً يسجد عليه، بخلاف ما إذا كان موضوعاً على الأرض يدل عليه ما في الذخيرة حيث نقل عن الأصل الكراهة في الأول، ثم قال: فإن كانت الوسادة موضوعةً على الأرض وكان يسجد عليها جازت صلاته، فقد صح أن أم سلمة كانت تسجد على مرفقة موضوعة بين يديها لعلة كانت بها ولم يمنعها رسول الله صلى الله عليه وسلم من ذلك اهـ فإن مفاد هذه المقابلة والاستدلال عدم الكراهة في الموضوع على الأرض المرتفع، ثم رأيت القهستاني صرح بذلك". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144102200056

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں