بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ داری کا معاہدہ


سوال

1) ہمارے یہاں چالیس  سال پہلے ایک جگہ شہر آباد تھا، حکومت نے اس جگہ کا  شہر ہونا ختم کرکے ایک دوسری جگہ شہر بسانے کا منصوبہ کیا تو  وہاں سے دوکانداروں کی دوکانیں ختم کراکے اس دوسری جگہ زمینیں دوکانداروں کے درمیان تقسیم کردیں، اس طور پر کہ  دوکاندار فقط کرایہ ادا کریں گے اور  تقسیم کے وقت ان سے سر قفلی کے نام پر پیسے لےلیے، لیکن اس دوسری جگہ بعض لوگوں کی زمینیں تهیں تو انہوں نے اپنی زمینوں کی بابت حکومت سے کہا کہ ہماری بهی زمینیں لوگوں کی درمیان تقسیم کردو تو حکومت نے اپنی زمینیں جیسی تقسیم کراکے لوگوں کو دیدی، اب کرایہ دار دوکانداروں نے اپنے خرچ سے دوکانیں آباد کی اور مالکان کو بهی کرایہ ادا کرتے رہے اس وقت سے کہ جب دوکانوں کا کرایہ کام وچلن نہ ہونے کی وجہ سے بہت مہنگاتها اس وقت تک کہ اس وقت دوکانیں چلنے لگی ہیں کبهی بهی دوکانداروں نے کرایہ دینے سے انکار نہیں کیا، لیکن اب مالکان نے ان سے دوکانیں خالی کرانے کا کہا ہے اور کسی دوسرے کو کرایہ پر دینے کا کہہ رہے ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا مالکان ان سے دوکان خالی کراسکتے ہیں اور ان کو حق القرار حاصل ہوگا یا نہیں؟ اگر کراسکتے ہیں تو ان لوگوں کا خرچ کیا مال کیا ہدر ہوجائے گا؟

2)اور دوسرا یہ کہ بعض دوکانداروں نے اپنی کرایہ کی دوکانیں دوسروں کو دیدی اور ان سے وہ پیسہ جو مالکان نے لے لیا تها ان دوسروں سے لےلیا اور ان دوسروں نے بهی کرایہ اصل مالک کو ادا کررہے ہیں تو کیا دوکانداروں کا یہ بیع درست ہے یا نہیں ؟

جواب

1۔ اگر مالکان اور کرایہ داروں کے درمیان کسی  خاص مدت تک کرایہ داری کا معاہدہ ہوا تھا تو اس مدت تک مالکان کے لیے دوکانیں خالی کرانا شرعا درست نہیں، لیکن اگر کسی خاص مدت تک کرایہ داری کا معاہدہ نہیں ہوایا خاص مدت تک کا معاہدہ تھا اور وہ مدت گزر گئی تو مالکان کے لیے دوکانیں خالی کرانے کی اجازت ہے، کرایہ داروں کو  مالک کی اجازت کے بغیر حق القرار حاصل نہیں، ایسی صورت میں کرایہ داروں نے جو دوکانوں پر خرچہ کیا ہے اس کا مطالبہ نہیں کرسکتے ۔ البتہ وہ چونکہ اپنی دکان توڑ کر ملبہ لے جانے کا حق رکھتے ہیں، اور یہ طریقہ دونوں میں سے بظاہر کسی کے مفاد میں نہیں ، اس لیے مناسب یہی ہے کہ دونوں مفاہمت سے کام لیتے ہوئے کسی معاوضہ پر اتفاق کرتے ہوئے وہ وصول کریں۔

2۔ کرایہ کی جگہ آگے بیچنا درست نہیں، لیکن جتنی ایڈوانس رقم پہلے کرایہ داروں نے دی ہے اتنی دوسرے کرایہ داروں سے لی جائے  اور اجارہ کا عقد اصل مالکان سے کرکے انہیں کرایہ دیں تو اس کی اجازت ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200669

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں