بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کراچی سے نوری آباد جانے والے کے لیے قصر کا حکم / بریلوی مسلک کے امام کی اقتدا


سوال

1-  احقر کو ایک ہفتہ کے لیے نوری آباد جانا ہوتا ہے، اور ایک ہفتہ وہاں پہ ہی رہتا ہوں، پیر کے دن جاتا ہوں اور ہفتہ کو واپس کراچی آتا ہوں، اس صورت میں مجھے قصر کرنی پڑے گی؟ کراچی میں میری رہائش لانڈھی میں ہے، میرے گھر سے نوری آباد تک کی مسافت  100کلو میٹر ہے۔

2- یہ بھی واضح  کریں کہ اختتامِ  کراچی کہاں سے ہے؟

3- وہاں اہلِ  رسومات کی مسجد ہے، کیا مجھے اہل امام کے پیچھے نماز ادا کرنی پڑے گی یا منفرد؟

جواب

1- واضح رہے کہ شرعی مسافتِ  سفر  سواستتر کلومیٹر ہے،  اور  اس کا شمار  شہر/ بستی کی آبادی کے آخری گھر سے ہوگا، لہٰذا اپنے شہر سے باہر اگر 77.24 کلو میٹر یا اس سے زیادہ دور جانا ہو تو آدمی شرعی مسافر بنتا ہے؛  لہذا صورتِ  مسئولہ میں   اگر کراچی کی اس جانب سے، جہاں سے آپ شہر سے نکلتے ہیں، آبادی کے اختتام سے لے کر نوری آباد تک کی مسافت  77.24 کلو میٹر   ہے تو آپ مسافر ہوں گے، اور  وہاں جاتے ہوئے شہر کی آبادی کی  حدود سے باہر نکل کر قصر  نماز پڑھیں گے، جہاں شہر  کی آبادی ختم ہوتی نظر آئے،  وہیں سے سفر کے احکام جاری ہوجائیں گے ۔    نیز نوری آباد میں آپ کا پندرہ دن سے کم کم رہنے کا ارادہ ہوتو آپ وہاں بھی شرعًا مسافر ہوں گے،اور قصر نما ز پڑھیں گے۔

غنية المستملي المعروف ب حلبي كبيري (536) سهيل اكيڈمي:

"من فارق بيوت موضع  هو فيه من مصر او قرية  ناويا الذهاب الي موضع بينه وبين ذالك الموضع المسافة المذكورة صار مسافر."

المبسوط للسرخسي (1/ 236):

"فإذا قصد مسيرة ثلاثة أيام قصر الصلاة حين تخلف عمران المصر؛ لأنه مادام في المصر فهو ناوي السفر لا مسافر، فإذا جاوز عمران المصر صار مسافرا لاقتران النية بعمل السفر."

یہ ملحوظ رہے کہ مذکورہ حکم اس وقت ہے جب کہ آپ اپنی  جائے ملازمت  نوری آباد میں میں کبھی بھی پندرہ دن یا اس سے زیادہ مقیم نہ ہوئے ہوں۔ اگر جائے ملازمت میں آپ ایک مرتبہ پندرہ دن یا اس سے زیادہ قیام کرچکے ہیں، اور وہاں  رہائشی کمرے میں آپ کا سامان وغیرہ موجود ہے، اور آپ نے اس کے بعد یہاں سے منتقل ہونے کی نیت نہیں کی تو جائے ملازمت آپ کا وطنِ اقامت ہوگا، اس صورت میں جائے ملازمت میں آپ کے لیے نمازِ قصر کا حکم نہیں ہوگا ؛ کیوں کہ جائے ملازمت آپ کے لیے وطنِ اقامت ہوگا۔ البتہ  دورانِ سفر (یعنی اپنے شہر سے نکلنے کے بعد سے جائے ملازمت والے شہر میں داخل ہونے سے پہلے) چار رکعات والی فرض نماز قصر ہی ادا کی جائے گی۔

اور اگر  کراچی شہر کی آبادی کے اختتام سے  لے کر نوری آباد تک 77.24 کلو میٹر  کی مسافت نہیں ہے تو آپ وہاں جانے کی صورت میں شرعی مسافر نہیں ہوں گے، لہٰذا بہر صورت آپ کو نماز مکمل ادا کرنی ہوگی۔

2۔۔  سابقہ سطور سے یہ بات واضح ہوگئی کہ  شرعی سفر کے تحقق کا مدار شہر/ بستی کی آبادی کے اختتام پر ہے، لہٰذا  شہر کی جس جانب سے  باہر نکلنے کا ارادہ ہو، اس جانب  جہاں آبادی ختم ہوگی، وہیں شہر کا اختتام سمجھا جائے گا۔  

3۔۔۔ اگر بریلوی مسلک  کا امام  شرکیہ عقائد نہیں رکھتا صرف بدعات میں مبتلا ہے، جیسے تیجہ ، چالیسوں وغیرہ تو اس کی امامت مکروہِ تحریمی ہے، صحیح العقیدہ  امام مل جائےتو ایسے بدعتی امام کی اقتدا میں نماز نہیں پڑھنی چاہیے، اور اگر صحیح العقیدہ امام نہ ملے تو مجبوراً ایسے امام کے پیچھے نماز پڑھ لی جائے ، جماعت نہیں چھوڑنی چاہیے ، اور اس نماز کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہوگی، البتہ متقی پرہیزگار  کے پیچھے نماز پڑھنے سے جتنا ثواب ملتا ہے  اتنا ثواب نہیں ملے گا۔

اور اگر بریلوی مسلک کا  امام شرکیہ عقائد میں مبتلا ہو، جیسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر وناظر ، یا عالم الغیب یا مختارِ کل سمجھتا ہو تو  ایسے امام کے عقیدے کا علم ہونے کے باوجود اس کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز نہیں ہے، پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم ہوگا۔ البتہ جب تک کسی بریلوی کے متعلق یقین نہ ہو کہ اس کا عقیدہ شرکیہ ہے تو اس کی اقتدا میں نماز پڑھنے کی صورت میں اعادہ لازم نہیں ہوگا۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200254

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں