بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کرامات کا انکار کرنا


سوال

کرامات کا انکار کرنے والوں کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟  اور دوسری بات یہ کہ کرامات صرف دیوبندی یا بریلوی مسلک سے منسلک ہے یا کسی بھی اللّٰہ کے نیک شخص سے جس کے عقائد صحیح ہوں؟

جواب

کراماتِ  اولیاء حق ہیں، یہی علمائے اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔

اور اولیاء وہ مؤمنین متقین ہوتے ہیں جو سنت کی پابندی کرنے والے اور بدعات سے بچنے والے ہوتے ہیں۔ اس کا تعلق کسی علاقے یا نام سے نہیں ہے۔   لہذا  ایسے اولیاء کے ہاتھ پر جو بھی خرقِ عادت ظاہر ہوتی ہے وہ کرامت ہے،  جو کہ درحقیقت اللہ تعالی کی جانب سے اپنے نیک بندوں کے اعزاز کے لیے ہوتی ہے۔ اور ان کا انکار کرنا  اہلِ سنت والجماعت کے مذہب کے خلاف ہے۔ اگر کوئی شخص اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھے یا سنتِ رسول ﷺ کے خلاف زندگی گزارے (خواہ وہ کوئی بھی ہو) اور اس کے ہاتھ پر خلافِ عادت واقعہ ظاہر ہو تو وہ کرامت نہیں، ’’استدراج‘‘  (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل) ہے۔

"نقض العادة علی سبیل الکرامة لأهل الولایة جائز عند أهل السُّنة". (الشامية، ج۶ ص۴۱۰،)

آیات قرآنیہ:

 

{كلما دخل عليها زكريا المحراب وجد عندها رزقاً} [آل عمران] 

{أم حسبت أن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من آياتنا عجباً} [الکهف]

{ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون الذين اٰمنوا وكانوا يتقون} [یونس] 

{إن أولياؤه إلا المتقون} [الأنفال]فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200135

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں