بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بجلی کا میٹر خراب ہونے کی وجہ سے بل کم آئے تو کیا کرے؟


سوال

ایک شخص نے کرائے کا مکان لیا ،  کچھ عرصہ بعد اسے محسوس ہوا کہ جس حساب سے بجلی خرچ ہو تی ہے  اس حساب سے بجلی کا بل کم آتا ہے۔ تحقیق کرنے سے معلوم ہوا کہ بجلی کے میٹر میں پہلے سے خرابی ہے (مکان میں شفٹ ہونے سے پہلے سے خرابی ہے،  اس شخص کا اس میں کوئی ہاتھ نہیں، جب کہ شفٹ ہونے کے بعد بھی کافی سال گزر چکے ہیں) ۔

اب معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ شخص بجلی کے دفتر میں شکایت درج کرواتا ہے تو پچھلے سارے سالوں کے لاکھوں کروڑوں کا بل اس کے ذمے کر دیا جائے گا جب کہ اس کی استطاعت نہیں ہے کہ وہ اتنا پیسہ دے سکے۔ اس پر پہلے سے ہی لاکھوں کا قرضہ ہے۔ اس لیے وہ میٹر صحیح کرنے کی درخواست نہیں دے سکتا،  لیکن دل میں پریشان ہے۔ اس کے لیے کیا حکم ہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جس شخص نے کرائے کا مکان لیا اور کچھ عرصہ بعد اسے محسوس ہوا کہ جس حساب سے بجلی خرچ ہوتی ہے اس حساب سے بجلی کا بل کم آتا ہے، تحقیق سے معلوم ہوا کہ بجلی کے میٹر میں پہلے سے خرابی ہے تو مذکورہ صورت میں سائل کو چاہیے کہ مالکِ  مکان کو اس میٹر کی خرابی کا اطلاع دے دے، اگر وہ اس میٹر کو صحیح نہیں کرتا تو کسی دوسرے گھر میں منتقل ہوجائے، اور جتنی بجلی زیادہ خرچ  کی ہے  اس کا اندازے  سے حساب لگا کر بجلی کے پیسے الیکٹرک  کے  دفتر میں جمع کردے۔  یا جن افراد  کا بل خلافِ ضابطہ و حقیقت، غلطی سے زیادہ آجائے  ان کے ساتھ ملا کر ادا کردے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"فإن اشترك المرمة على المستأجر فسدت الإجارة لأن المرمة على الآخر فهذا شرط مخالف لمقتضى العقد، ثم المشروط على المستأجر من ذلك أجره وهو مجهول المقدار والجنس والصفة وجهالة الأجرة تفسد الإجارة". (باب إجارة الحمامات، ج: 15، ص: 157، ط: بيروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقضى العقد فكلما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة أو مدة أو عمل، وكشرط طعام عبد وعلف دابة ومرمة الدار أو مغارمها وعشر أو خراج أو مؤنة رد أشباه". (باب الإجارة الفاسدة، 46/6، ط: بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وعمارة الدار) المستأجرة (وتطيينها وإصلاح الميزاب وما كان من البناء على رب الدار) وكذا كل ما يخل بالسكنى (فإن أبى صاحبها) أن يفعل (كان للمستأجر أن يخرج منها إلا أن يكون) المستأجر (استأجرها وهي كذلك وقد رآها) لرضاه بالعيب". (ج: 6، ص79، ط: سعيد)

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وعمارة الدار وتطيينها وإصلاح الميزاب وما وهي من بنائها على رب الدار لأن به يتمكن المسأجر من سكنى الدار، وكذلك كل سترة يضر تركها بالسكنى، لأن المستأجر بمطلق العقد استحق المعقود عليه بصفة السلامة فإن أبى أن يفعل فللمستأجر أن يضر منها لوجود العيب بالمعقود عليه". (باب إجارة الدور والبيوت 15/144، ط: بيروت)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012200891

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں