بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کتابوں میں مذکور بزرگوں کی کرامت کے واقعات پر یقین کرنا ضروری ہے یا نہیں؟


سوال

کتابوں میں کچھ بزرگوں کے حالات و واقعات ملتے ہیں، جس میں ان کی کرامات بتائی جاتی ہیں جو عقل سے بالاتر ہوتی ہیں، کیا ان پر یقین کیا جا سکتا ہے؟ اگر ہاں، تو کس حد تک ؟

جواب

کراماتِ  اولیاء حق ہیں، یہی علمائے اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔اور اولیاء وہ مؤمنین متقین ہوتے ہیں جو سنت کی پابندی کرنے والے اور بدعات سے بچنے والے ہوتے ہیں، ایسے اولیاء کے ہاتھ پر جو خرقِ عادت (خلافِ عادت ومعمول) بات ظاہر ہوتی ہے وہ کرامت ہے،  جو کہ درحقیقت اللہ تعالی کی جانب سے اپنے نیک بندوں کے اعزاز کے لیے ہوتی ہے۔ اور مطلقاً کرامت کا انکار کرنا، اولیاء کی کرمات تسلیم نہ کرنا  اہلِ سنت والجماعت کے مذہب کے خلاف ہے۔

درحقیقت خلافِ عقل و خلافِ عادت واقعے کا صدور قدرتِ خداوندی سے ہوتاہے، ولی کا اس میں ذاتی عمل دخل نہیں ہوتا، نہ ہی ولی کا دعویٰ یہ ہوتاہے کہ میں جب چاہوں کرامات دکھا سکتاہوں، اس لیے جب مستند حوالے سے کرامت کا کوئی واقعہ ثابت ہوجائے تو اسے ماننے میں تردد نہیں ہونا چاہیے، اور کرامت ماننے کا مطلب اور اس کی حد یہ ہے کہ یہ سمجھاجائے کہ اس کے ذریعے اللہ کے ولی کی کسی خاص موقع پر تائید یا اس کا اعزاز مقصود ہوتاہے، کرامت کسی کی بزرگی اور تقرب الی اللہ ناپنے کا پیمانہ نہیں ہے، نہ ہی مختلف اولیاء کے درمیان کرامات کی بنیاد پر موازنہ قائم کرنا چاہیے۔ نیز کرامات کا اظہار اور ان کا حصول مقاصد میں سے نہیں ہے، یہ غیر اختیاری امر ہے، بزرگی اور ولایت کا مدار اتباعِ سنت وشریعت ہے۔

اور اگر کوئی شخص سنتِ رسول ﷺ کے خلاف زندگی گزارے، اور اہلِ سنت والجماعت کے عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھے اور اس کے ہاتھ پر خلافِ عادت واقعہ ظاہر ہو تو وہ کرامت نہیں، ’’استدراج‘‘  (اللہ تعالیٰ کی طرف سے ڈھیل) ہے۔

باقی کتابوں میں بزرگوں کی کرامات کے جو واقعات ملتے ہیں تو ان پر یقین کرنے یا نہ کرنے کا مدار  ثبوت اور اطمینانِ قلب پر ہے، یعنی اگر قرائن اور شواہد ( مثلاً واقعہ نقل کرنے والے پر اعتماد) کی وجہ سے دل کو اس کے سچا ہونے کا گمان ہوتا ہو تو اس کرامت پر یقین کیا جاسکتا ہے، جب کہ اگر کسی بھی وجہ سے اس خاص کرامت کے اس خاص شخص سے صادر ہونے کو دل تسلیم نہیں کرتا ہو تو پھر اس خاص واقعہ (کرامت) پر یقین رکھنا ضروری نہیں ہے۔ 

خلاصہ یہ ہے کہ نفسِ کرامت کا واقع ہونا چوں کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے، اس لیے نفسِ کرامت کے وقوع کو تو ناممکن نہیں سمجھنا چاہیے، البتہ کتابوں میں منقول ہر کرامت پر یقین رکھنا ضروری نہیں ہے۔ جس واقعے کا ثبوت مستند حوالے سے ہو، اسے بیان کرنے میں حرج نہیں ہے، اور جس خاص واقعے کا ثبوت نہ ہو  یا اس کے ثبوت میں تردد ہو تو اس کا انکار  کیا جاسکتاہے، لیکن اگر اس بات کا تعلق کسی مستند بزرگ سے ہو تو واقعے کا انکار کرتے ہوئے اس بزرگ کی تنقیص جائز نہیں ہوگی۔

"نقض العادة علی سبیل الکرامة لأهل الولایة جائز عند أهل السُّنة". (الشامية، ج۶ ص۴۱۰،)

آیات قرآنیہ:

{كلما دخل عليها زكريا المحراب وجد عندها رزقاً} [آل عمران] 

{أم حسبت أن أصحاب الكهف والرقيم كانوا من آياتنا عجباً} [الکهف]

{ألا إن أولياء الله لا خوف عليهم ولا هم يحزنون الذين اٰمنوا وكانوا يتقون} [یونس] 

{إن أولياؤه إلا المتقون} [الأنفال]فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں