بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کبوتر سے ہیپاٹائٹس سی کے علاج سے متعلق ایک جواب کی وضاحت


سوال

اس جواب کی مجھے دلیل درکار ہے:

*کبوتر سے یرقان کا علاج*

سوال:  ایک صاحب نے ہیپا ٹائٹس کا علاج کبوتر سے کرنے کا طریقہ بتایا ہے، اس علاج میں جب تک مرض ختم نہیں ہوتا تب تک کبوتر مرتے رہتے ہیں، کیا اس طرح سے علاج کرنا اسلام میں درست ہے؟ جواب : اگر ہیپاٹائٹس سی یا اس طرح کے موذی اور مہلک امراض کے علاج کے لیے تجربے سے یہ بات ثابت ہو جائے کہ یہ طریقہ کار آمد ہے اور اس سے مرض واقعی ختم ہو جاتا ہے تو علاج کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنے کی گنجائش ہوگی ،  اور اگر اس کے علاوہ کوئی ایسا طریقہ علاج ہو جس میں کسی جان دار کی جان نہ جاتی ہو اور کوئی شرعی ممانعت بھی نہ ہو ہو تو وہ طریقہ علاج اختیار کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144008200684 دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن

جواب

انسان اشرف المخلوقات ہے، اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا، اس کے علاوہ دنیا کی تمام چیزیں چرند، پرند، چوپائے یہ سب انسان کے فائدے اور ضرورت کے لیے بنائے ہیں، ارشادِ باری تعالیٰ ہے : 

{هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا} [البقرة: 29]

  اس آیت میں زمین کی تمام چیزوں کو انسان کے لیے پیدا فرمانے کا بیان ہوا ہے، اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ دنیا کی کوئی چیز ایسی نہیں جس سے انسان کو کسی نہ کسی حیثیت سے بلا واسطہ یا بالواسطہ فائدہ نہ پہونچتا ہو، خواہ یہ فائدہ دنیا میں استعمال کرنے کا ہو یا آخرت کے لیے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کا، بہت سی چیزیں ایسی ہیں کہ انسان کو ان سے فائدہ پہونچتا ہے، مگر اس کو خبر بھی نہیں ہوتی، یہاں تک کہ جو چیزیں انسان کے  لیے مضر سمجھی جاتی ہیں، جیسے: زہریلی اشیاء زہریلے جانور وغیرہ غور کریں تو وہ کسی نہ کسی حیثیت سے انسان کے لیے نفع بخش بھی ہوتی ہیں، جو چیزیں انسان کے لیے ایک طرح سے حرام ہیں، دوسری کسی طرح اور حیثیت سے ان کا نفع بھی انسان کو پہنچتا ہے۔ (معارف القرآن)

لہذا انسان کو لاحق کسی موذی مرض کے علاج کی غرض سے  اگر کسی جانور  کی جان چلی جاتی ہے  تو اس کی ممانعت نہیں ہے، ہاں مارنے کے لیے ایسا طریقہ اختیارکرنا چاہیے جس سے جانور کو تکلیف  کم سے کم ہو،  جب کہ دوسری طرف   ہیپاٹائٹس سی ایک مؤذی اور جان لیوا مرض ہے، اس کا علاج بھی بہت مشکل ہے اور جو علاج موجود ہیں ان پر اخراجات بھی بہت زیادہ آتے ہیں، اس لیے اگر تجربہ سے یہ ثابت ہوجائے کہ یہ اس مرض کے علاج کے لیے کارآمد اور مؤثر ہے، تو  اس سے علاج کرنے کی گنجائش ہوگی۔ جب سابقہ جواب میں یہ شرط بھی آخر میں مذکور ہے کہ اگر اس کی علاوہ کوئی جائز طریقہ علاج ہو جس میں جان دار کی جان نہ جاتی ہو اور کوئی شرعی ممانعت بھی نہ ہو تو وہ طریقہ علاج اختیار کیا جائے۔

حجة الله البالغة (2/ 284) :
" من قتل عصفوراً فما فوقه بغير حقه سأله الله عز وجل عن قتله، قيل: يا رسول الله وما حقه؟ قال: أن يذبحه فيأكله ولايقطع رأسه فيرمى به". أقول: ههنا شيآن متشابهان لا بد من التمييز بينهما: أحدهما الذبح للحاجة واتباع داعية إقامة مصلحة نوع الإنسان. والثاني السعي في الأرض بفساد نوع الحيوان واتباع داعية قسوة القلب". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010201288

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں