بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کالے دھاگے پر قرآن پاک پڑھ کر پھونکنے کے بعد اسے پہننے یا ہاتھ وغیرہ پر باندھنے کا حکم


سوال

کالا یا کسی اور رنگ کا دھاگا  جس پر قرآن پاک پڑھ کر پھونکا گیا ہو اس کا پہننا جائز ہے؟

جواب

ہاتھ میں کسی بھی رنگ کا دھاگا باندھنا  اگر کسی نفع کی امید یا نقصان سے بچاؤ کی نیت وعقیدہ سے ہو تو  اس عقیدہ کے ساتھ ہاتھوں میں دھاگا باندھنا درست نہیں ؛  اس لیے کہ  نفع ونقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ، اللہ ہی بھلائیاں عطا کرتے ہیں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں ،بلکہ بعض فقہاء نے اسے افعالِ کفر میں شمار کیا ہے، زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے ، ان دھاگوں کو  ’’رتیمہ‘‘  کہا جاتا ہے ، فقہاء نے لکھا ہے : یہ ممنوع ہے، اور بعض فقہاء نے  اسے کفریہ کاموں میں شمار کیا ہے۔  البتہ اگر کسی بھی رنگ کے دھاگے پر قرآنِ پاک پڑھ کر پھونکنے کے بعد اسے بطورِ تعویذ ہاتھ وغیرہ پر باندھا یا پہنا جائے تو یہ جائز ہوگا، لیکن جہاں اشتباہ ہو یا لوگوں کا عقیدہ خراب ہونے یا بدگمانی میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہو تو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔

بہر صورت بہتر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص خود قرآنی دعائیں اور حفاظت کے مسنون اذکار پڑھ سکتاہے تو اسے چاہیے کہ وہ خود معوذات پڑھے، اور اس میں بہ نسبت تعویذ باندھنے کے ہرطرح کے شر سے حفاظت بھی زیادہ ہے، اور اس میں ایمان وعقیدہ متاثر ہونے کے بجائے اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور اس سے تعلق مزید مضبوط ہوجاتاہے۔ اور اگر کوئی خود نہ پڑھ سکتاہو تو دھاگے پر پڑھوا کر اس پر گرہیں لگواکر گلے یا بازو میں پہننے کی بجائے کاغذ وغیرہ پر آیات یا مسنون اذکار وغیرہ پر مشتمل ادعیہ لکھ کر تعویذ پہن لیا جائے؛ کیوں کہ کلائی یا گلے میں دھاگا باندھنے میں ایک گونہ بدعقیدہ وبے راہ لوگوں سے مشابہت  ہے اور صحیح العقیدہ لوگوں کے اشتباہ کا ذریعہ بھی ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 363):

"(لا) يكره  ... (و) لا (الرتيمة) هي خيط يربط بأصبع أو خاتم لتذكر الشيء والحاصل أن كل ما فعل تجبرا كره وما فعل لحاجة لا، عناية. [فرع] في المجتبى: التميمة المكروهة ما كان بغير العربية.

 (قوله: ولا الرتيمة) جمعها رتائم وتسمى رتمة بالفتحات الثلاث وجمعها رتم بالفتحات أيضاً يقال: أرتمت الرجل إرتاماً إذا عقدت في أصبعه خيطاً يستذكر به حاجته إتقاني عن أبي عبيدة قال الشاعر:

إذا لم تكن حاجاتنا في نفوسكم ... فليس بمغن عنك عقد الرتائم

قال في الهداية: وقد روي أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر بعض أصحابه بذلك اهـ. وفي المنح: إنما ذكر هذا لأن من عادة بعض الناس شد الخيوط على بعض الأعضاء، وكذا السلاسل وغيرها، وذلك مكروه؛ لأنه محض عبث، فقال: إن الرتم ليس من هذا القبيل كذا في شرح الوقاية اهـ قال ط: علم منه كراهة الدملج الذي يضعه بعض الرجال في العضد. (قوله: التميمة المكروهة) أقول: الذي رأيته في المجتبى التميمة المكروهة ما كان بغير القرآن، وقيل: هي الخرزة التي تعلقها الجاهلية اهـ فلتراجع نسخة أخرى. وفي المغرب: وبعضهم يتوهم أن المعاذات هي التمائم وليس كذلك إنما التميمة الخرزة، ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالى، ويقال: رقاه الراقي رقياً ورقيةً إذا عوذه ونفث في عوذته، قالوا: إنما تكره العوذة إذا كانت بغير لسان العرب، ولايدرى ما هو ولعله يدخله سحر أو كفر أو غير ذلك، وأما ما كان من القرآن أو شيء من الدعوات فلابأس به اهـ قال الزيلعي: ثم الرتيمة قد تشتبه بالتميمة على بعض الناس: وهي خيط كان يربط في العنق أو في اليد في الجاهلية؛ لدفع المضرة عن أنفسهم على زعمهم، وهو منهي عنه وذكر في حدود الإيمان أنه كفر اهـ. وفي الشلبي عن ابن الأثير: التمائم جمع تميمة وهي خرزات كانت العرب تعلقها على أولادهم يتقون بها العين في زعمهم، فأبطلها الإسلام، والحديث الآخر: «من علق تميمةً فلا أتم الله له»؛ لأنهم يعتقدون أنه تمام الدواء والشفاء، بل جعلوها شركاء؛ لأنهم أرادوا بها دفع المقادير المكتوبة عليهم وطلبوا دفع الأذى من غير الله تعالى الذي هو دافعه اهـ ط وفي المجتبى: اختلف في الاستشفاء بالقرآن بأن يقرأ على المريض أو الملدوغ الفاتحة، أو يكتب في ورق ويعلق عليه أو في طست ويغسل ويسقى. وعن «النبي صلى الله عليه وسلم أنه كان يعوذ نفسه» قال - رضي الله عنه -: وعلى الجواز عمل الناس اليوم، وبه وردت الآثار، ولا بأس بأن يشد الجنب والحائض التعاويذ على العضد إذا كانت ملفوفةً اهـ".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200490

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں