بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر کو دین کی دعوت دینا


سوال

تبلیغی حضرات دینا بھر میں جماعتوں کی تشکیل کرتے ہیں اور ان کا دعویٰ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری ہے ،ہم پر فرض کافروں کو دعوت دینا، کیا کافروں کو دین اسلام کی دعوت دینا مسلمانوں پر فرض ہے ؟

جواب

مسلمانوں اور کافروں کو نیکی کا حکم کرنا اور برائی سے روکنا (امر بالمعروف اور نہی عن المنکر) کرنا فرض کفایہ ہے، جس کی موجودہ زمانہ میں ایک صورت دعوت و تبلیغ ہے۔

فتاوی محمودیہ میں ہے:

"تبلیغ دین ہر زمانہ میں فرض ہے، اس زمانہ میں بھی فرض ہے، لیکن فرض علی الکفایہ ہے، جہاں جتنی ضرورت ہو اسی قدر اس کی اہمیت ہوگی اور جس جس میں جیسی اہلیت ہو اس کے حق میں اسی قدر ذمہ داری ہوگی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صراحت قرآنِ کریم میں ہے، سب سے بڑا معروف ایمان ہے اور سب سے بڑا منکر کفر ہے، ہر مؤمن اپنی اپنی حیثیت کے موافق مکلف ہے کہ خدائے پاک کے نازل فرمائے ہوئے دین کو حضرت رسول مقبول ﷺ کی ہدایت کے موافق پہنچاتا رہے۔"

(فتاوی محمودیہ، کتاب العلم، باب التبلیغ   4/ 203 ط: فاروقیہ)

أحكام القرآن ـ للجصاص  (2 / 315):

"قال اللّه تعالى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ} قال أبو بكر: قد حوت هذه الآية معنيين: أحدهما: وجوب الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر، و الآخر أنه فرض على الكفاية ليس بفرض على كل أحد في نفسه إذا قام به غيره؛ لقوله تعالى: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ} وحقيقته تقتضي البعض دون البعض، فدلّ على أنه فرض على الكفاية إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين، و من الناس من يقول: هو فرض على كل أحد في نفسه، و يجعل مخرج الكلام مخرج الخصوص في قوله: {وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ} مجازًا كقوله تعالى: {لِيَغْفِرَ لَكُمْ مِنْ ذُنُوبِكُمْ} ومعناه ذنوبكم، و الذي يدل على صحة هذا القول أنه إذا قام به بعضهم سقط عن الباقين كالجهاد و غسل الموتى و تكفينهم و الصلاة عليهم و دفنهم، و لو لا أنه فرض على الكفاية لما سقط عن الآخرين بقيام بعضهم به."

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200497

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں