بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کافر کا مال ہلاک کرنے پر مسلمان پر ضمان ہوگا یا نہیں؟


سوال

جس طرح مسلمان کے اَموال ہلاک کرنے سے دوسرا  مسلمان ضامن ہوتا ہے تو  کیا کافر کے اَموال ہلاک کرنے کی صورت میں مسلمان پر ضمان لازم ہوگا یا نہیں؟

جواب

                واضح رہے کہ جو کفار مسلمانوں کے ملک میں  ذمی کی حیثیت سے رہ رہے ہوں یا ویزہ لے کر مسلمانوں کے ملک میں آئے ہوں اور مستامن کی حیثیت سے ہوں تو ان کے اموال کا حکم مسلمانوں کے اموال کی طرح ہے، یعنی  ان کے اموال کو ہلاک  کرنے والے پر  بھی مسلمانوں کا مال ہلاک کرنے والے کی طرح ضمان  لازم ہوگا،  نیز اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی دارالحرب میں رہتا ہو یا کوئی مسلمان ویزہ لے کر کسی کافر ملک میں گیا ہو ،اگر وہ کسی کافر کے مال کو نقصان پہنچائے تو وہ مسلمان اس کا ضامن ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

’’ قال في الشرنبلالية: ويضمن المال لثبوت عصمة مال المستأمنحالا وإن لم يكن على التأبيد‘‘(ج۴ص۱۱۳ط:سعید)

و فیہ ایضا:

’’ (هو من يدخل دار غيره بأمان) مسلمًا كان أو حربيًّا (دخل مسلم دار الحرب بأمان حرم تعرضه لشيء) من دم ومال وفرج (منهم) إذ المسلمون عند شروطهم ... 

(قوله إذ المسلمون عند شروطهم)؛ لأنه ضمن بالاستئمان أن لا يتعرض لهم، والغدر حرام‘‘.(ج۴ص۱۶۶ط:سعید)

البحرالرائق میں ہے:

’’ وقد قال علي - رضي الله عنه - إنما بذلوا الجزية لتكون دماؤهم كدمائنا وأموالهم كأموالنا وذلك بأن تكون معصومة بلا شبهة كالمسلم؛ ولهذا يقطع المسلم بسرقة مال الذمي‘‘. (ج۸ص۳۳۷ط: دار الكتاب الإسلامي) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144106200873

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں