بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبارمیں جھوٹ بولنا


سوال

کیا کسی کا نام اس کی اجازت سے استعمال کر کےکسی سے کاروبار کرنا جائز ہوگا؟جیسے  احمد کا نام علی استعمال کر کے کسی کسٹمر کو بولے که میں احمد ہوں اور میں یہ کام کرلوں گا ،ظاہری طور پر کوئی ملاقات نہیں ،بس آن لائن کام ہے تو کیا یہ جائز ہے؟

 

جواب

واضح رہے کہ  شریعت مطہرہ میں کسی بھی قسم کی دھوکہ دہی اور جھوٹ بولنے پر شدید وعیدیں وارد ہوئی ہیں ، چنانچہ ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹ کو مسلمان کی شان کے خلاف بتایا ہے، اور فرمایا کہ:"مومن ہر خصلت  پر ڈھل سکتا ہے سوائے خیانت اور جھوٹ کے"۔ایک اور روایت میں جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔لہذا  صورتِ مسئولہ  میں لہذا ایسا معاملہ کرنا جس میں دھوکہ اور چھوٹ ہو شرعی اعتبارسے   جائز نہیں ہے، ا  س لیے مذکورہ معاملہ اجتناب کرنا ضروری ہے۔

مسند احمد میں ہے:

"حدثنا وكيع قال: سمعت الأعمش قال: حدثت عن أبي أمامة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب."

( مسند أبي أمامة،504/36، ط: مؤسسة الرسالة)

صحيح البخاري میں ہے:

"حدثنا مسدد: حدثنا بشر بن المفضل: حدثنا الجريري، عن عبد الرحمن بن أبي بكرة، عن أبيه رضي الله عنه قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (ألا أنبئكم بأكبر الكبائر). ثلاثا، قالوا: بلى يا رسول الله، قال: (الإشراك بالله، وعقوق الوالدين - وجلس وكان متكئا، فقال - ‌ألا ‌وقول ‌الزور). قال: فما زال يكررها حتى قلنا: ليته يسكت".

(‌‌ باب: ما قيل في شهادة الزور،939/2،ط : دار ابن كثير)

وفیہ ایضا : 

" حدثنا سليمان أبو الربيع قال: حدثنا إسماعيل بن جعفر قال: حدثنا نافع بن مالك بن أبي عامر أبو سهيل، عن أبيه، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:(‌آية ‌المنافق ‌ثلاث: إذا حدث كذب، وإذا وعد أخلف، وإذا اؤتمن خان)".

(‌‌ باب: علامة المنافق،21/1،ط : دار ابن كثير)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144507101310

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں