بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروباری نفع میں اللہ تعالی کو شریک بنانا


سوال

عموماً لوگ کاروبار میں اللہ تعالی کو شریک بناتے ہیں کہ کاروبار میں جو منافع ہوگا اس میں سے 10فیصد اللہ تعالی کا حصہ ہوگا ، اب سوال یہ ہے کہ اللہ کےلیےمخصوص کیے گۓ حصے کو ہر جگہ خرچ کرسکتے ہیں جیسے مسجد بنوانا ، مدرسہ تعمیر کروانا یامصارفِ زکاۃ  کی طرح اس کے مصرف الگ ہیں؟

جواب

کاروبار میں جو نفع کا حصہ  اللہ تعالی   کے لیے خاص کیا جائے، اگر  زبان سے یہ   کہا کہ  اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے تو  اس کی  حیثیت  نذر  کی ہے، ا س سے مسجد بنوانا  ، مدرسہ کی تعمیر کروانا  درست نہیں ہے۔ اسی طرح  اس حصے میں سے مال دار  شخص کو  یا والدین  ،  اولاد اور میاں بیوی کا ایک دوسرے کو دینادرست نہیں  ہے۔ کسی غریب مستحق کو دینا ضروری ہے۔

اور  اگر زبان سے نہیں کہاکہ  اتنا حصہ اللہ تعالی کا ہے،  بلکہ صرف نیت کی کہ اتنا صدقہ میں غریبوں کو دوں گا تو  اس کی  حیثیت صدقہ  کی ہے، ا س سے مسجد بنوانا ، مدرسہ کی تعمیر کروانا   درست   ہے۔ 

"اعلم أن الصدقۃ تستحب فاضل عن کفایتہ، والافضل لمن یتصدق نفلاً أن ینوی لجمیع المؤمنین والمؤمنات؛ لأنہا تصل إلیہم ولا ینقص من أجرہ شیء"۔ (شامي ۲؍۳۵۷ کراچی)
"فالجملہ في ہذا أن جنس الصدقۃ یجوز صرفہا إلی المسلم … ویجوز صرف التطوع إلیہم بالاتفاق، وری عن أبي یوسف أنہ یجوز صرف الصدقات إلی الأغنیاء أذا سموا فی الوقف۔ فأما الصدقۃ علی وجہ الصلۃ والتطوع فلا بأس بہ، وفي الفتاوی العتابیۃ: وکذلک یجو ز النفل للغني"۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۳؍۲۱۱-۲۱۴)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201049

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں