بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کاروبار میں لگے سونے کی زکاۃ


سوال

میں نے اپنے پاس موجود سونا کسی کو نفع کی غرض سے دیا ہے جس سے ماہانہ نفع مجھے ملتا ہے۔ اب زکاۃ  سونے کی مقدار  کے اعتبار سے دوں گا یا جو نفع آتا ہے اس پر دوں گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے سونے سے اگر سونار نے دوکان کا سامان (ریک ، شوکیس وغیرہ)  خریدا ہو  تو اس صورت میں آپ کے سونے پر زکاۃ لازم نہ ہوگی، البتہ نفع کی صورت میں جو نفع موصول ہوتا ہے اگروہ نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو یا آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہوں اور اس نفع میں سے کچھ  رقم بقیہ قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ جمع ہوتی ہو تو سال مکمل ہونے پر  اس پر زکاۃ لازم ہوگی۔ 

البتہ اگر آپ کے سونے سے سونار نے سامان نہ خریدا ہو،  بلکہ اسی سونے سے خرید و فروخت کرتا ہو تو اس صورت میں اگر سونا بقدرِ نصاب ہو تو اس پر زکاۃ لازم ہوگی اور جو ماہانہ  نفع  موصول ہوتا ہے، اس پر بھی درج بالا تفصیل کے مطابق (یعنی اگر وہ پس انداز ہوتاہو، اور نصاب کے برابر یا اس سے زیادہ ہو، یا دیگر قابلِ زکاۃ اموال کے ساتھ مل کر نصاب تک پہنچتاہو تو سال مکمل ہونے پر) زکاۃ لازم ہوگی۔

اگر آپ نے سونا اسلامی طریقہ کاروبار کے مطابق نہیں دیا، بلکہ دینے کی صورت یہ ہو کہ سونا اسے اس شرط پر دیا ہےکہ وہ ماہانہ آپ کو کچھ  طے شدہ رقم دے دیا کرے یا یہ شرط لگائی کہ معاملہ ختم ہونے پر سونا ضرور واپس کرنا ہوگا، اور اس دوران نفع کے طور پر کچھ رقم بھی دینی ہوگی تو کاروبار کی یہ صورت  فاسد ہے اور نفع ناجائز ہے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں