بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کئی قسمیں توڑیں اور تعداد یاد نہیں


سوال

میں غصہ میں کئی مرتبہ قسمیں کھا چکا ہوں اور ان کو توڑ چکا ہوں۔اب ان کا کفارہ کیسے ادا ہو گا؟ اور مجھے صحیح یاد بھی نہیں کہ کتنی قسمیں توڑ ی ہیں۔اب ان کے لیے الگ الگ کفارہ ادا کرنا ہو گا یا ایک ہی دفعہ کفارہ ادا کرنے سے سب کفارہ ادا ہو جائے گا ؟

جواب

کسی ایک کام کے کرنے یا نہ کرنے سے متعلق متعدد قسمیں کھانے کے بعد توڑنے کی صورت میں تو ایک ہی کفارہ کافی ہوجاتا ہے، لیکن  اگر متعدد قسمیں متعدد کاموں کے کرنے یا نہ کرنے کی کھائیں ہوں اور پھر ان قسموں کو توڑ دیا ہو تو ہر قسم کو توڑنے کے بدلہ ایک  کفارہ ادا کرنا لازم ہے، متعدد کاموں کی قسموں کے کفارہ میں تداخل جائز نہیں ہے (یعنی ایک کفارے میں تمام توڑی ہوئی قسموں کے کفاروں کی نیت کرنا درست نہیں)، بلکہ ہر قسم کا الگ الگ کفارہ ادا کرنا لازم ہے۔

اگر توڑی ہوئی قسموں کی تعداد یاد نہیں تو ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کیجیے  کہ کتنی قسمیں توڑ چکے ہیں، پھر غالب گمان کے مطابق  جتنا عدد توڑی ہوئی قسموں کا ذہن میں آئے اتنے کفارے ادا کردیجیے، اگر احتیاطاً اس تعداد سے کچھ اوپر کفارے ادا کردیں تو زیادہ اچھا ہے۔

قسم کا کفارہ یہ ہے کہ  دس مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلانا یا دس مسکینوں میں سے ہر ایک کو صدقۃ الفطر کی مقدار  ( یعنی پونے دو کلو گندم) کے بقدر گندم یا اس کی قیمت دینا، اور اگر ’’جو‘‘  دے تو اس کا دو گنا (تقریباً ساڑھے تین کلو) دے۔  یا دس فقیروں کو  ایک ایک جوڑا کپڑا پہنا دے۔

اور اگر  قسم توڑنے والا ایسا غریب ہے کہ نہ تو کھانا کھلا سکتا ہے اور نہ کپڑا دے سکتا ہے یا چند کفارے دینے کے بعد اس کی استطاعت نہیں ہے تو  ایک قسم توڑنے کا کفارہ یہ ہے کہ مسلسل تین روزے رکھے، اگر الگ الگ کر کے تین روزے پورے کر لیے  تو کفارہ ادا نہیں ہوگا۔ اگر دو روزے رکھنے کے بعد درمیان میں کسی عذر کی وجہ سے ایک روزہ چھوٹ گیا تو اب دوبارہ تین روزے رکھے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 714):

"وفي البحر عن الخلاصة والتجريد: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين، والمجلس والمجالس سواء؛ ولو قال: عنيت بالثاني الأول ففي حلفه بالله لايقبل، وبحجة أو عمرة يقبل. وفيه معزياً للأصل: هو يهودي هو نصراني يمينان، وكذا والله والله أو والله والرحمن في الأصح. واتفقوا أن والله والرحمن يمينان، وبلا عطف واحدة.

 (قوله: وتتعدد الكفارة لتعدد اليمين) وفي البغية: كفارات الأيمان إذا كثرت تداخلت، ويخرج بالكفارة الواحدة عن عهدة الجميع. وقال شهاب الأئمة: هذا قول محمد. قال صاحب الأصل: هو المختار عندي. اهـ. مقدسي، ومثله في القهستاني عن المنية (قوله: وبحجة أو عمرة يقبل) لعل وجهه أن قوله: إن فعلت كذا فعلي حجة، ثم حلف ثانياً كذلك يحتمل أن يكون الثاني إخباراً عن الأول، بخلاف قوله: والله لاأفعله مرتين؛ فإن الثاني لايحتمل الإخبار؛ فلاتصح به نية الأول، ثم رأيته كذلك في الذخيرة. وفي ط عن الهندية عن المبسوط: وإن كان إحدى اليمينين بحجة والأخرى بالله تعالى فعليه كفارة وحجة (قوله: وفيه معزياً للأصل إلخ) أي وفي البحر: والظاهر أن في العبارة سقطاً، فإن الذي في البحر عن الأصل: لوقال: هو يهودي هو نصراني إن فعل كذا، يمين واحدة، ولو قال: هو يهودي إن فعل كذا، هو نصراني إن فعل كذا، فهما يمينان (قوله: في الأصح) راجع للمسألتين: أي إذا ذكر الواو بين الاسمين فالأصح أنهما يمينان سواء كان الثاني لايصلح نعتاً للأول أو يصلح، وهو ظاهر الرواية. وفي رواية يمين واحدة، كما في الذخيرة.

قلت: لكن يستثنى ما في الفتح حيث قال: ولو قال: على عهد الله وأمانته وميثاقه ولا نية له فهو يمين عندنا ومالك وأحمد. وحكي عن مالك يجب عليه بكل لفظ كفارة؛ لأن كل لفظ يمين بنفسه، وهو قياس مذهبنا إذا كررت الواو كما في والله والرحمن والرحيم إلا في رواية الحسن. اهـ. (قوله: واتفقوا إلخ) يعني أن الخلاف المذكور إذا دخلت الواو على الاسم الثاني وكانت واحدةً، فلو تكررت الواو مثل والله والرحمن فهما يمينان اتفاقاً؛ لأن إحداهما للعطف والأخرى للقسم، كما في البحر. وأما إذا لم تدخل على الاسم الثاني واو أصلاً، كقولك: والله الله، وكقولك: والله الرحمن فهو يمين واحدة اتفاقاً، كما في الذخيرة، وهذا هو المراد بقوله: وبلا عطف واحدة".

البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري (4/ 316):

"وفي التجريد عن أبي حنيفة: إذا حلف بأيمان فعليه لكل يمين كفارة، والمجلس والمجالس سواء".

کفایت المفتی میں ہے:

’’ایک امر پر چند قسموں سے ایک ہی کفارہ کافی ہوجاتا ہے‘‘. (کتاب الیمین و النذر 2/ 245 ط: دار الاشاعت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں