بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کئی سال بعد زیادہ قرض وصول کرنا


سوال

میرے چچا نے 25 سال پہلے میری والدہ سے 15000 لیے اوربغیر بتائے اپنی دکان میں لگائے کاروبار کے لیے اور اسی دوران میرے والد نے 35000 انہیں کاروبار کے لیے دیے۔  اِس کے بعدکئی باران سے واپسی کا مطالبہ کیا،  مگران کے پاس ہوتے ہوئے بھی انہوں نے رقم واپس نہیں کی، اس وقت سونا 4720 تولہ تھا۔ آج اگر وہ پیسے واپس کریں گے تو آج کے گولڈ کے ریٹ کے حساب سے واپس کریں گے ؟ کیوں کے اب میرے والد مزدور  ہیں اور اپنی رقم کا مطالبہ کر رہے ہیں اپنی بیٹیوں  کی شادی کے لیے . اسلام کی رو  سے بتایا جائے کے 25 سال کے بعد کیا  آج کے گولڈ کے حساب سے واپسی ہوگی؟

جواب

اگر مذکورہ رقم آپ کے چچا نے قرض کے طور پر لی ہے تو اس صورت میں پچیس سال بعد بھی اتنی ہی رقم واپس کرنا لازم ہے، جتنی کہ وصول کی تھی۔ سونے کی قیمت کا اعتبار نہیں کیاجائے گا،  قرض  کے بارے میں شرعی ضابطہ یہ ہے کہ جس چیز کا جتنا قرض لیاجائے اتنی ہی مقدار قرض دار پر واپس کرنالازم ہے، چاہے جتنے عرصے بعد واپسی ہو، قرض میں دی گئی رقم کی مالیت گھٹنے یا بڑھنے کا شریعت نے اعتبار نہیں کیا ہے، شریعت کا مسلمہ اصول ہے کہ’’الدیون تقضیٰ بأمثالها‘‘  یعنی قرضوں کی واپسی ان قرضوں کے مثل (برابر) سے ہی ہوگی، اسی لیے اگر قرض کی واپسی میں اضافہ کی شرط لگائی جائے تو وہ عین سود ہوگا۔

لہذا آپ کے چچا پر اتنی ہی رقم واپس کرنا لازم ہے جتنی رقم انہوں نے 25سال قبل بطورِ قرض وصول کی تھی، البتہ اگر  کسی پیشگی معاہدہ و شرط کے بغیر قرض دار خود سے قرض کی واپسی کے وقت قرض خواہ کا احسان مانتے ہوئے کچھ زیادہ ادائیگی کردے اور اضافے کے ساتھ ادائیگی کا عرف نہ ہو تو یہ اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہوگا اور اس پر اسے اجر و ثواب بھی ملے گا، کیوں کہ حدیث میں بھی اس بات کی ترغیب دی گئی ہے، چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا :تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض کی ادائیگی زیادہ اچھے طریقہ سے کرنے والا ہو۔  لہٰذا جس طرح وقت پر قرضہ ادا کرنا اس میں شامل ہے، اسی طرح  بلاشرط بطورِ تبرع کچھ بڑھا کر ادا کرنا بھی اچھے طریقہ سے ادا کرنے میں شامل ہے۔ لیکن یہ واضح رہے کہ قرض خواہ صراحۃً یا اشارۃً یا کنایۃً زیادتی کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔

اور اگر مذکورہ رقم انہوں  نے کاروبار میں شریک کرنے کے لیے شراکت کے طور پر لی تھی اورباہمی نفع ونقصان میں شراکت اور حصص کی صورت میں نفع کی تعیین کامعاہدہ کیا گیا تھا، لیکن چچا نے اس وقت سے تاحال اس رقم اور شراکت کے نفع و نقصان کا کوئی حساب نہیں دیا تو آپ کے والد اور والدہ کو ان سے حساب وصول کرنے کا حق حاصل ہے،  چچا کے ذمہ لازم ہے کہ شراکت کی صورت میں کیے گئے کاروبار اور نفع ونقصان کی تفصیل بتلاکر اس معاملہ کو صاف کردیں،  ورنہ شرعی اعتبار سے وہ سخت گناہ گار ہوں گے۔

صحيح مسلم (3/ 1224):

"عن عطاء بن يسار، عن أبي رافع، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم استسلف من رجل بكراً، فقدمت عليه إبل من إبل الصدقة، فأمر أبا رافع أن يقضي الرجل بكره، فرجع إليه أبو رافع، فقال: لم أجد فيها إلا خياراً رباعياً، فقال: «أعطه إياه، إن خيار الناس أحسنهم قضاءً»".

احکام القرآن میں ہے:

 ’’نهی لکلّ أحد عن أکل مال نفسه ومال غیره بالباطل، وأکل مال نفسه بالباطل إنفاقه في معاصي اللّٰه، وأکل مال الغیر بالباطل قد قیل: فیه وجهان: أحدهما ما قال السدي وهو أن یأکل بالربا والقمار والبخس والظلم، وقال ابن عباس رضي اللّٰه تعالٰی عنه والحسن رحمه اللّٰه تعالٰی أن یأکله بغیر عوض‘‘. (أحکام القرآن ،ج:۲،ص:۲۱۶، دار الکتب العلمیة، بیروت) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200098

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں