بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈیبٹ کارڈ پر ملنے والے ڈسکاؤنٹ کا حکم


سوال

بعض کمپنیاں ڈیبٹ کارڈ پر ڈسکاؤنٹ دیتی ہیں،  وہ لینا صحیح  ہے؟ مثلاً:  اگر ہم نے کوئی چیز خریدی پھر کسی بینک کے ڈیبٹ کارڈ سے پیمنٹ کی جس کی وجہ سے وہ دکان والا اصل قیمت سے کم لیتا ہے، یہ صحیح ہے ؟

جواب

ڈیبٹ کارڈ پرملنے والے ڈسکاؤنٹ کودیکھا جائے کہ یہ ڈسکاؤنٹ بینک کی طرف سے ہے یا جس ادارے سے  چیز خریدی جارہی ہے(مثلاً : ہوٹل یاشاپنگ مالز وغیرہ) یہ رعایت اس ادارے کی جانب سے ہے،  اگر بینک کی طرف سے ڈسکاؤنٹ مل رہاہو تو یہ شرعاً سود کے زمرے میں شامل ہونے کی  بنا پر ناجائزہوگا،اور اگرمتعلقہ ادارے کی طرف سے یہ رعایت مل رہی ہو توجائز ہے۔ ایک تیسری صورت ہے کہ نہ تو بینک ڈسکاؤنٹ دیتا ہے نہ متعلقہ ادارہ (شاپنگ مال، یا ریسٹورنٹ وغیرہ) بلکہ جو ادارہ ڈیبٹ کارڈ بناتا اس کی طرف سے ڈسکاؤنٹ ملتاہے، اگر ایسی صورت ہو اور اس ادارے کے کل معاملات یا اکثر معاملات حلال کام اور حلال آمدن پر مشتمل ہوں تو بھی اس ڈسکاؤنٹ سے فائدہ اٹھانے کی اجازت ہوگی۔

البتہ اگر یہ واضح نہ ہو کہ ڈسکاؤنٹ بینک طرف سے ہے یا متعلقہ ادارے کی جانب سے یا تیسرے ادارے کی جانب سے تب احتیاط اسی میں ہے کہ اس سہولت کو استعمال نہ کیا جائے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201706

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں