بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈی ایکس این کمپنی کا حکم


سوال

آج کل ایک ملٹی نیشنل کمپنی ’’ڈی ایکش این‘‘  کے نام سے خاصی مشہور ہے جو کہ مختلف طبی ادویہ بیچتی ہے اور یہ ادویہ کے اجزاء حلال ہوتے ہیں، لیکن اپنے پراڈکٹس کی سیل بڑھانے کے لیے وہ مختلف لوگوں کو اپنا ممبر شپ دیتی ہے اور ہر ممبر کا ایک اپنا الگ سا کوڈ ہوتا ہے، اب یہ ممبر مریض ڈھونڈ کر اس مریض کو اپنے اس کوڈ کا حوالہ دے کر کمپنی کی ادویہ جس ڈاکٹر یا حکیم کے پاس ہو ادھر بھیج کر علاج کروا کر اس پر ادویہ فروخت کرتا ہے، چنانچہ جتنی ادویہ وہ مریض خریدتا ہے اسی تناسب یعنی فیصدی سے اس ممبر کو کمپنی اپنی طرف سے بونس دیتی ہے ،جب کہ یہ بونسز اگر ماہانہ سیل بڑھے تو اور بھی بڑھتا ہے، کیا اس طرح سے کمپنی کی ممبر شپ حاصل کرکے کمانا درست ہے یا نہیں ؟

جواب

ہماری معلومات کے مطابق ’’ڈی ایکس این‘‘ (DXN) کمپنی ملٹی لیول مارکیٹنگ کے اصول پر کمیشن دیتی ہے،  یعنی اگر ایک ممبر کسی شخص کو  کمپنی کی  پروڈکٹس کا خریدار بنائے  اور وہ کسٹمر بھی اس کمپنی کا ممبر بن جائے تو اسے اولاً اس مریض کا کمیشن ملے گا، اس کے بعد یہ نیا ممبر جب آگے کسی تیسرے شخص کو کمپنی کے پروڈکٹ کا خریدار بنائے تو اس پہلے شخص کو بھی اس کا کمیشن ملے گا۔اور اسی طرح دیگر بونس بھی پہلے شخص کو اس بنا  پر ملتے ہیں کہ اس نے اور اس کے ماتحت کسٹمرز نے کتنا کام کیا ہے، پس اس طرح کی مارکیٹنگ کا حکم یہ ہے کہ پہلے شخص نے براہِ راست جس شخص کو کمپنی کا خریدار بنایا ہے اس کی بنا پر کمیشن لینا جائز ہے، باقی وہ جس کو آگے خریدار بنائے گا اس کے اس عمل کا کمیشن  پہلے شخص کے لیے لینا جائز نہیں، کیوں کہ کمیشن اپنے کام کی اجرت لینا ہے،  جس شخص کو آپ نے خریدار بنا ہے اس کا کمیشن لینا تو جائز ہے، لیکن اس نے آگے جس کو خریدار بنایا ہے اس کا کمیشن لینا آپ کے لیے جائز نہیں، کیوں کہ اس میں آپ کی محنت نہیں پائی جارہی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 63):

"وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201134

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں