بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈی ایس پی فنڈ میں اپنے اختیار سے زائد رقم جمع کرانا اور اس پر نفع لینا


سوال

میں پاکستان وزارت دفاع کے ایک محکمہ میں ملازمت کرتا ہوں۔ الحمداللہ دعوت و تبلیغ سے 18 سال سے مستقل تعلق ہے اور تبلیغی نصاب کی مطابق روزانہ، ماہانہ اور سالانہ اوقات کی پابندی بھی ہے۔ بندہ ماہانہ تنخواہ وصول کرنے کے بعد باوجود کوشش بچت نہیں کرپاتا تھا،  تو میں نے اس نیت سے ڈی ایس پی فنڈ میں حکومت کی طرف سے متعین جبری مقدار سے زیادہ رقم اپنی تنخواہ سے کٹوانا شروع کی تھی کہ ریٹائرمنٹ کے بعد جو رقم جمع ہو کر ملے گی تو اس سے ان شاء اللہ تعالی بیرون ممالک تبلیغی سفر کے لیے کام میں لاؤں گا۔ تو کیا مجھے ڈی ایس پی فنڈ کی مد میں جو رقم ریٹائرمنٹ کے بعد ملے گی جبکہ اس میں حکومت کی طرف سے اضافی سالانہ منافع بھی شامل ہوگا وہ لینا اور اس سے بیرون ممالک تبلیغی اسفار کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟

۔ براہ کرم رہنمائ فرمائیں۔ نوازش ھوگی۔

ڈی ایس پی فنڈ کا طریقۂ کار درج ذیل ہے:

ہمارے محکمہ (پاکستان آرمی) کا قانون یہ ہے کہ محکمہ ہر ملازم کی تنخواہ سے ایک معین رقم بلا اجازتِ ملازم جبری طور پر براہ راست تنخواہ سے کاٹ لیتا ہے اور رقم کی مقدار ملازمین کے عہدہ کے مطابق الگ الگ متعین ہے۔ مثلا گریڈ (بی پی ایس) 4 کے جتنے ملازمین پورے پاکستان میں ہیں ان کی تنخواہ سے ہر صورت 500 روپے کاٹ لیئے جاتے ہیں جبکہ گریڈ (بی پی ایس) 5 کے جتنے ملازمین پورے پاکستان میں ہیں ان کی تنخواہ سے ہر صورت 600 روپے کاٹ لیئے جاتے ہیں۔

اگر کوئی ملازم یہ رقم نہ کٹوانا چاہے تو اس کو اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا، محکمہ اپنے قوانین کے مطابق بہر صورت یہ رقم ضرور بالضرور کاٹے گا۔ البتہ اگر کوئی ملازم چاہے تو اس کو محکمہ کے قوانین کے تحت اس بات کی اجازت ہے کہ وہ اس ماہانہ کٹوتی کی رقم میں اپنی مرضی سے اضافہ کروا سکتا ہے مثلا 500 کی بجائے 10000 کرواسکتا ہے۔

مندرجہ بالا دونوں صورتوں میں ہر سال وزارت دفاع کی جانب سے جاری کردہ نئی شرح کے مطابق (جس میں ہرسال کمی بیشی ہوتی رہتی ہے) سالانہ اضافہ ( interest) کے نام سے ملازم کے ڈی ایس پی فنڈ کے کھاتے میں شامل کردیا جاتا ہے۔

دونوں صورتوں میں مذکورہ رقم محکمہ ملازم کو ریٹائرمنٹ پہ معہ اضافہ (interest) ادا کرتا ہے ، اور دوران سروس اگر کوئی ملازم اپنے ڈی ایس پی فنڈ کے کھاتے سے کچھ رقم نکلوانا چاہے تو وہ مستعار سمجھی جاتی ہے جو کہ زیادہ سے زیادہ 50 اقساط میں ملازم کو واپس کرنا پڑتی اور وہ بھی تنخواہ کے ماہانا کلیم سے محکمہ ازخود کاٹ لیتا ہے۔

اب اس بات کا کسی کو کوئی علم نہیں کہ محکمہ لاکھوں ملازمین کی تنخواہ سے ہر ماہ ڈی ایس پی فنڈ کی مد میں کاٹی جانے والی اس رقم کا کیا کرتا ہے۔ البتہ اتنا علم ضرور ہے کہ محکمہ کے اپنے کئی ایک عالمی معیار کے بہت بڑے بڑے کاروباری ادارے قومی سطح پہ چل رہے ہیں، جن کی مصنوعات پورے پاکستان میں فروخت ہوتی ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بیرون ممالک بھی جاتی ہوں۔ اس بات کا امکان و گمان ہوسکتا ہے اور نہیں بھی کہ لاکھوں ملازمین کی تنخواہ سے وصول ہونے والی یہ رقم انہی اداروں کے کاروبار میں لگائی جاتی ھوں۔ واللہ عالم

جواب

صورتِ مسئولہ میں ڈی ایس پی فنڈ کی مد میں جتنی کٹوتی ملازم کو تنخواہ ملنے سے قبل جبراً (غیر اختیاری) ہوتی ہے، اس  صورت میں اصل رقم پر جو زائد رقم ملتی ہے وہ ملازم کے لیے لینا شرعاً جائز  ہے،  اور جتنی رقم تنخواہ ملنے کے بعد  ملازم  اپنی مرضی سے کٹواتا ہے اس کے بارے میں تفصیل یہ ہے کہ جتنی رقم تنخواہ میں سے کاٹی گئی ہے اور حکومت کے ادارہ نے اس میں جتنی رقم شامل کی ہے وہ دونوں رقم لینا جائز ہے، البتہ ان دونوں رقموں پر انشورنس کمپنی نے جو سود ملایا ہے، وہ حرام ہے ، لینا جائز نہیں ہے۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (والأجرة لا تملك بالعقد بل بالتعجيل أو بشرطه أو بالاستيفاء أو بالتمكن منه)

أي لا تملك الأجرة بنفس العقد سواء كانت الأجرة عينا أو دينا، وإنما تملك بالتعجيل أو بشرط التعجيل أو باستيفاء المعقود عليه وهي المنفعة أو بالتمكن من استيفائه بتسليم العين المستأجرة في المدة."

 حاشية الشِّلْبِيِّمیں ہے:

"(قوله في المتن والأجرة لا تملك بالعقد) قال في الهداية الأجرة لا تجب بالعقد وتستحق بإحدى معان ثلاث إما بشرط التعجيل أو بالتعجيل من غير شرط أو باستيفاء المعقود عليه اهـ قوله لا تجب بالعقد أي لا يجب أداؤها وتسليمها بمجرد العقد أما نفس الوجوب فثابت بنفس العقد. اهـ."

(كتاب الإجارة، ٥ / ١٠٦ - ١٠٧، ط: دار الكتاب الإسلامي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909202107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں