بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈپریشن کے مریض کی طلاق کا حکم


سوال

 میں دبئی میں جاب کرتا ہوں اور گھریلو مسائل اور ماحول نے مجھے ڈپریشن کا مریض بنا دیا ہے، اس کی کیفیت یہ ہے کہ ڈاکٹر نے مجھے فوری علاج کا مشورہ دیا ہے، بصورتِ دیگر مکمل ذہنی مریض یعنی پاگل ہو سکتا ہوں اور  فی الحال میں ڈپریشن کی گولیاں استعمال کرتا ہوں،  خلاصہ یہ ہے کہ میرا ذہنی توازن اپنی حالت پر نہیں ہے،  جس کی وجہ سے میں بسا اوقات آپے سے باہر ہو جاتا ہوں،  اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں نے سوا سال قبل شادی کی اور دبئی آگیا، یہاں دبئی میں چودہ گھنٹے کی نوکری کرتا ہوں، شادی کے بعد جب سے دبئی واپس آیا ہوں ، روزانہ گھر والے فون کرکے کبھی والدہ میری اہلیہ کی اور کبھی میری اہلیہ میری والدہ کی شکایت کرتی ہیں، جس کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوتا ہوں، ایک دن اسی طرح چند دن قبل میری والدہ نے مجھے فون کرکے میری بیوی کی شکایات کیں، جس کی وجہ سے میں نے فون پر ہی کہا کہ میں نے طلاق دی، طلاق دی، طلاق دی، اس وقت میں ہوش میں نہیں تھا، انتہائی غصے کی حالت میں تھا؛ لہذا اب میری ذہنی کیفیت کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے بتائیں کیا طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں طلاق دیتے ہوئے اگر واقعتًا آپ انتہائی غصے کی حالت  میں تھے اور ہوش و حواس برقرار نہیں تھا، منہ  سے نکلنے  والے الفاظ پر  قابو نہیں تھا اور  اس سے پہلے بھی اس طرح کا واقعہ پیش آچکا ہو یعنی انتہائی غصے میں ہوش و حواس کھودینے کا یہ پہلا واقعہ نہ ہو تو  اس کیفیت میں طلاق دینے  سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔ 

حاشية رد المحتار على الدر المختار  (3 / 244):

"و سئل نظمًا فيمن طلق زوجته ثلاثًا في مجلس القاضي و هو مغتاظ مدهوش فأجاب نظمًا أيضًا بأن الدهش من أقسام الجنون فلايقع و إذا كان يعتاده بأن عرف منه الدهش مرةً يصدق بلا برهان اهـ  قلت: و للحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنّه على ثلاثة أقسام أحدها أن يحصل له مبادي الغضب بحيث لايتغير عقله و يعلم ما يقول و يقصده و هذا لا إشكال فيه، الثاني أن يبلغ النهاية فلايعلم ما يقول و لايريده فهذا لا ريب أنه لاينفذ شيء من أقواله، الثالث من توسط بين المرتبتين بحيث لم يصر كالمجنون فهذا محل النظر، و الأدلّة تدلّ على عدم نفوذ أقواله اهـ ملخصًا من شرح الغاية الحنبلية ... فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش و نحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله و أفعاله الخارجة عن عادته و كذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال و الأفعال لاتعتبر أقواله و إن كان يعلمها و يريدها؛ لأنّ هذه المعرفة و الإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن إدراك صحيح كما لاتعتبر من الصبي العاقل."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200887

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں