بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈرامہ میں نکاح کا حکم


سوال

آپ کے ایک فتوی  میں یہ تو بتا دیا گیا ہے کہ اگر ڈرامہ میں لڑکا لڑکی کے فرضی ناموں کے ساتھ نکاح کروایا جائے تو ان کا نکاح نہیں ہوتا، لیکن اگر ڈرامہ میں لڑکی اور لڑکے کے اصل نام (والدین کے نام لیے بغیر) کے ساتھ نکاح منعقد کیا جائے جو صرف ڈرامہ کے لیے ہو تو کیا ان کا نکاح ہو جائے گا؟

جواب

ڈرامے  میں کیے جانے والے نکاح سے مقصود ریکارڈنگ اور حکایت ہوتی ہے اور دیکھنے والوں کے نزدیک بھی یہ بات معروف ہوتی ہے کہ مقصود نکاح نہیں، بلکہ ریکارڈنگ اور حکایت ہے،  اس لیے کہ ڈراما  میں پہلے ڈراما  نگار فرضی کہانی لکھتا ہے، اور ڈرامہ میں کام کرنے والے اس فرضی کہانی کی عکاسی کرتے ہوئے اس کی حکایت کرتے ہیں، لہذا ڈراما میں اسکرپٹ کی نقل سے نکاح منعقد نہیں ہوگا، اگرچہ حقیقی نام سے بھی ہو۔ البتہ  ڈراما  میں یہ عمل جائز  نہیں ہے اور   ڈراما  کی ویڈیو بنانابذاتِ خود بھی جائز نہیں ہے۔

البتہ اگر ڈرامے  میں کام کرنے والے لڑکا اور لڑکی نے نکاح ہی کی نیت سے الفاظ ادا کیے ہوں اور گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کرلیا ہو ، اور لڑکی کسی اور کی منکوحہ نہ ہو تو  نکاح منعقد ہوجائے گا۔

فتاوی تاتارخانیہ میں ہے:

"وفي الذخيرة : قال واحد من أهل المجلس للمطربة: "اين بيت بگو كه من بتودادم كه تو جان مني"، فقالت المطربة : ذلك، فقال الرجل : "من پزيرفتم"، إذا قالت على وجه الحكاية فقيل: لاينعقد النكاح، لأنها إذا قالت على وجه الحكاية لاتكون قاصدةً للإيجاب". (4/7، کتاب النکاح،ط: مکتبہ فاروقیہ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں