بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈراموں میں دکھائے گئے علامتی نکاح کا حکم


سوال

اکثر اوقات ڈراموں میں مرد و زن کا علامتی نکاح دکھایا جاتا ہے، جس میں نکاح کی شرائط مثلاً گواہ اور ایجاب وقبول بھی ہوتا ہے،  اور حال یہ کہ مذکورہ مرد وزن حقیقت میں غیر شادی شدہ ہیں تو اس صورت میں ان کے نکاح کا کیا حکم ہے؟

جواب

فلموں اور ڈراموں میں دکھایا گیا مرد و عورت کا علامتی اور فرضی نکاح محض تمثیل اور حکایت کے طور پر ہوتا ہے یعنی فلم اور ڈرامے کا جو  اسکرپٹ ہوت ہےا مر د و عورت صرف اس کو نقل کررہے ہوتے ہیں اور اس لکھے ہوئے کی مثال اور عملی صورت پیش کررہے ہوتے ہیں۔ اور کسی اور  کی بات نقل کرنے سے نہ نکاح منعقد ہوتا ہے اور نہ طلاق واقع ہوتی ہے۔لہذا ڈراموں میں دکھایا گیا فرضی نکاح شرعاً  منعقد نہیں ہوتا۔

واضح رہے کہ جان دار کی تصاویر پر مشتمل ویڈیو (فلم ہو یا ڈراما) نا جائز ہے، اس کے دیکھنے سے بھی اجتناب چاہیے۔ 

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (3 / 250):
"ولكن لا بد في وقوعه قضاءً وديانةً من قصد إضافة لفظ الطلاق إليها عالماً بمعناه ولم يصرفه إلى ما يحتمله، كما أفاده في الفتح، وحققه في النهر احترازاً عما لو كرر مسائل الطلاق بحضرتها أو كتب ناقلاً من كتاب امرأتي طالق مع التلفظ أو حكى يمين غيره؛ فإنه لايقع أصلاً ما لم يقصد زوجته وعما لو لقنته لفظ الطلاق فتلفظ به غير عالم بمعناه فلايقع أصلاً على ما أفتى به مشايخ أوزجند صيانة عن التلبيس". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200208

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں