بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ڈرائیور کا غلطی سے کسی کو قتل کرنے کا حکم


سوال

اگر ڈرائیور سے خطا سے کوئی قتل ہوا تو ڈرائیور کے ذمے شرعاً  کیاہے؟

جواب

ڈرائیور اگر غلطی سے غیر عمدی طور پر ایکسیڈنٹ کے ذریعہ اپنی سواری کے علاوہ کسی دوسرے کو قتل کردے تو یہ قتلِ خطا ہے اور  اس کی وجہ سے کفارہ اور دیت دونوں لازم ہوں گے (بشرط یہ کہ ایکسیڈنٹ ڈرائیور کی غلطی کی وجہ سے ہوا ہو)۔کفارے کے طور پر اس ڈرائیور کو مسلسل ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے۔البتہ دیت کی ادائیگی اس ڈرائیور کی "عاقلہ" کے ذمہ ہے، عاقلہ سے مراد وہ جماعت، تنظیم یا کمیونٹی ہے جس کے ساتھ اس ڈرائیور کا تناصر (یعنی باہمی تعاون) کا تعلق ہو، یہ دیت تین سال میں ادا کی جائے گی، سونے کی صورت میں اگر دیت ادا کی جائے تو دیت کی مقدار ایک ہزار دینار اور درہم  کے اعتبار سے دس ہزار (۱۰،۰۰۰ ) درھم جس کا اندازہ جدید پیمانے سے 30.618 کلوگرام چاندی یا اس کی قیمت ہے۔

فتح القدير للكمال ابن الهمام (10/ 330):

"(قال:ومن قاد قطاراً فهو ضامن لما أوطأ)، فإن وطئ بعير إنساناً ضمن به القائد والدية على العاقلة؛ لأن القائد عليه حفظ القطار كالسائق وقد أمكنه ذلك وقد صار متعدياً بالتقصير فيه، والتسبب بوصف التعدي سبب للضمان، إلا أن ضمان النفس على العاقلة فيه وضمان المال في ماله (وإن كان معه سائق فالضمان عليهما) لأن قائد الواحد قائد للكل، وكذا سائقه لاتصال الأزمة، وهذا إذا كان السائق في جانب من الإبل، أما إذا كان توسطها وأخذ بزمام واحد يضمن ما عطب بما هو خلفه، ويضمنان ما تلف بما بين يديه لأن القائد لا يقود ما خلف السائق لانفصام الزمام، والسائق يسوق ما يكون قدامه".

تکملة فتح الملهم (۲ ؍ ۵۲۳ ):

"ثم لم یذکر الفقهاء حکم السیارة لعدم وجودها في عصرهم. والظاهر أن سائق السیارة ضامن لما أتلفته في الطریق ، سواء أتلفته من القدام أو من الخلف. و وجه الفرق بینها و بین الدابة علی قول الحنفیة أن الدابة متحرکة بإرادتها، فلاتنسب نفحتها إلی راکبها، بخلاف السیارة، فإنها لاتتحرک بإرادتها ، فتنسب جمیع حرکاتها إلی سائقها، فیضمن جمیع ذلک، والله سبحانه و تعالیٰ أعلم".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 530):

"(و) الثالث (خطأ وهو) نوعان: لأنه إما خطأ في ظن الفاعل ك (أن يرمي شخصا ظنه صيداً أو حربياً) أو مرتداً (فإذا هو مسلم أو) خطأ في نفس الفعل كأن يرمي (غرضاً) أو صيدا (فأصاب آدمياً) أو رمى غرضاً فأصابه ثم رجع عنه أو تجاوز عنه إلى ما وراءه فأصاب رجلاً أو قصد رجلاً فأصاب غيره أو أراد يد رجل فأصاب عنق غيره، ولو عنقه فعمد قطعاً أو أراد رجلاً فأصاب حائطاً ثم رجع السهم فأصاب الرجل فهو خطأ؛ لأنه أخطأ في إصابة الحائط ورجوعه سبب آخر والحكم يضاف لآخر أسبابه، ابن كمال عن المحيط. قال: وكذا لو سقط من يده خشبة أو لبنة فقتل رجلاً يتحقق الخطأ في الفعل ولا قصد فيه، فكلام صدر الشريعة فيه ما فيه. وفي الوهبانية: وقاصد شخص إن أصاب خلافه ... فذا خطأ والقتل فيه معذر

وقاصد شخص حالة النوم إن يمن ... فيقتص إن أبقى دما منه ينهر

(و) الرابع (ما جرى مجراه) مجرى الخطأ (كنائم انقلب على رجل فقتله) ؛ لأنه معذور كالمخطئ (وموجبه) أي موجب هذا النوع من الفعل وهو الخطأ وما جرى مجراه (الكفارة والدية على العاقلة) والإثم دون إثم القاتل إذ الكفارة تؤذن بالإثم لترك العزيمة". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201244

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں