بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چہرہ کا پردہ


سوال

چہرے کے پردے سے متعلق آگاہ کردیں!

جواب

عورت کے لیے غیر محرم سے پردہ سر سے لے کر پاؤں تک تمام اعضاء کا ہے، خصوصاً چہرے  کا پردہ اس لیے کہ باعثِ کشش اور ذریعۂ فتنہ عورت کا چہرہ ہی ہے، ورنہ دوسرے بدن پر تو اس نے لباس پہن ہی رکھا ہوتا ہے!
قرآنِ کریم بھی ہمیں اس کی طرف راہ نمائی کرتا ہے کہ عورت کے چہرہ کا پردہ ہے، چنانچہ ارشاد ہے: 
{یا ایها النبی قل لازواجك و بنٰتك و نسآء المؤمنین یدنین علیهن من جلابیبهن} (الاحزاب:۵۹ )
ترجمہ: ’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم! اپنی ازواجِ مطہرات، اپنی بیٹیوں اور مؤمن عورتوں سے فرمادیجیے کہ اپنے (چہروں) پر پردے لٹکالیا کریں۔‘‘
اسی طرح یہ حکم بھی چہرے کے پردے کی طرف متوجہ کرتا ہے: 
{واذا سألتموهن متاعاً فاسئلوهن من وراء حجاب} (الاحزاب:۵۳)
ترجمہ: ’’جب ازواج مطہرات سے کچھ پوچھنا ہو تو پردے کے پیچھے سے پوچھا کریں۔‘‘ 

احادیثِ مبارکہ سے بھی عورت کے چہرے کے پردے کا ثبوت ملتاہے، اِحرام کے دوران جب کہ عورت کے لیے چہرے پر کپڑا لگائے رکھنا منع ہوتاہے، اس حال میں بھی صحابیات رضی اللہ عنہن اجنبی مردوں سے چہرہ چھپایا کرتی تھیں۔ صحیح بخاری میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے قافلہ سے بچھڑ جانے والے قصہ میں ان کا یہ فرمانا : قافلے سے پیچھے آنے والے صحابی کے ’’انا للہ‘‘ پڑھنے پر میں فوراً  نیند سے بیدار ہوگئی اور اپنا چہرہ چھپالیا۔ یہ بھی  اس بات کی دلیل ہےکہ عورت کے چہرے کا پردہ فرض ہے۔

جب خیر القرون میں امہات المومنین رضی اللہ عنہن جیسی پاکیزہ و مقدس ہستیوں کو یہ حکم ہوا تو  پندرہویں صدی کے اس شر و فتنہ کے دور اور مادر پدر آزاد ماحول کے آزاد خیال مردوں سے عورت کو چہرہ کے پردہ کا حکم کیوں نہ ہوگا؟

عورت کے چہرے کا پردہ صرف اجماع کی وجہ سے یا صرف فتنے کے زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ بہت سی نصوص سے چہرے کا پردہ ثابت ہے، اور خیر القرون میں جب ازواجِ مطہرات اور صحابیات رضوان اللہ علیہن کو چہرے کے پردے کا حکم تھا اور انہوں نے اس کا اہتمام کیا تو اس دور میں بدرجہ اولیٰ مؤمنات کو چہرے کے پردے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آیاتِ حجاب کی تفسیر میں چہرہ چھپانے اور صرف ایک یا دونوں آنکھیں کھلی رکھنے کی اجازت نقل فرمائی ہے۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:   

 ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب عورتیں کسی ضرورت کے تحت اپنے گھروں سے نکلیں تو انہیں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ وہ بڑی چادروں کے ذریعہ اپنے سروں کے اوپر سے اپنے چہروں کو ڈھانپ لیں اور صر ف ایک آنکھ کھلی رکھیں اور محمد بن سیرین ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے عبیدۃ السلمانی سے اللہ تعالیٰ کے ارشاد : {یدنین علیهن من جلابیبهن} کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے اپنے سر اور چہرہ کو ڈھانپ کر اور بائیں آنکھ کھول کر ا س کا مطلب  بتلایا‘‘۔

  (تفسیر ابن کثیر للإمام أبي الفداء الحافظ ابن کثیر الدمشقي ، سورة الأحزاب: تحت الآیة: {یدنین علیهن من جلابیبهن ...الخ: ۳؍۵۳۵۔ ط:قدیمی کراچی) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106201102

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں