بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھپ کر نکاح


سوال

میں شادی شدہ ہوں ،35 سال عمر ہے ، دفتر میں کسی خاتون سے تعلق ہے غیر شادی شدہ ، عمر  38  سال۔اس کا اصرار ہے کہ مجھ سے نکاح کرلو، اپنی خواہش پوری کرنے  کے لیے ، رہا نہیں جاتا، وہ کماتی ہے تو تمام حقوق چھوڑنے کے لیے تیار ہے۔میں دوسری شادی  کے لیے بھی تیار ہوں ،  لیکن وہ اپنے گھر میں نہیں بتائےگی۔ 

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے اسلامی معاشرے کو جنسی بے راہ روی سے بچاکر تسکینِ شہوت کے لیے اور اسے اعلی اَقدار پر استوار کرنے اور صالح معاشرے کی تشکیل کے لیے  نکاح کا حلال راستہ متعین کیا ہے، اور نکاح کی صورت میں ہم بستری و جسمانی تعلقات قائم کرنے کو حلال کردیا ہے جب کہ اس کے علاوہ تسکینِ شہوت کے دیگر تمام ذرائع کو حرام قرار دیاہے۔ نیز نکاح چوں کہ تسکینِ شہوت کا حلال ذریعہ ہے اس وجہ سے نکاح کے اعلان کے حکم کے ساتھ ساتھ مساجد میں نکاح کی تقریب منعقد کرنے کی ترغیب بھی دی ہے؛ تاکہ اس حلال و پاکیزہ بندھن سے بندھنے والے افراد پر حرام کاری کا الزام لگانے کا موقع کسی کو نہ ملے اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آ سکے جو نسلِ انسانی کی بقا کا ذریعہ ہو۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:

’’عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم:  أَعْلِنُوا هَذَا النِّكَاحَ، وَاجْعَلُوهُ فِي الْمَسَاجِدِ ...‘‘ الحديث.

(سنن الترمذي، باب ما جاء في إعلان النكاح)

نیز چھپ کر نکاح مصالحِ نکاح کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سی شرعی و معاشرتی برائیوں کا سبب ہے، جیسے ہم بستری کے نتیجہ میں حمل ٹھہرنے  کے بعد حمل ضائع کروانا ( جوکہ ایک درجہ میں قتلِ اولاد کے زمرے میں آتا ہے)، مذکورہ مرد و خاتون کو نازیبا حرکات کرتے دیکھنے والوں کا ان کے بارے میں بدگمان ہونا یا ان پر بد چلنی کا الزام لگانا وغیرہ، اس لیے بڑوں کو اعتماد میں لے کر یہ قدم اٹھانا چاہیے اور نکاح علی الاعلان کرنا چاہیے۔

بصورتِ مسئولہ مذکورہ خاتون سے اس کی رضامندی کے ساتھ گواہوں کی موجودگی میں اگرچہ آپ کا نکاح جائز ہوگا، لیکن والدین کی رضامندی کے بغیر   چھپ کر نکاح کرنا شرعاً، عرفاً اور اخلاقاً سخت ناپسندیدہ عمل ہے،  اسلامی معاشرتی احکام  اور  آداب کی روشنی میں والدین اولاد کے لیے فیصلہ کرتے ہیں،  یا اولاد والدین کو اعتماد میں لے کر فیصلہ کرتے ہیں، بہر حال ان معاملات میں بزرگوں کی سرپرستی  ہونی چاہیے؛ لہٰذا مذکورہ خاتون کو چاہیے کہ وہ اپنے والدین کی رضامندی سے، بلکہ ان کی سرپرستی میں آپ سے نکاح کرے، اور آپ پر لازم ہوگا کہ نکاح کے بعد دونوں بیویوں کے حقوق (نان و نفقہ ، وشب باشی وغیرہ) کی ادائیگی میں برابری کریں، اور نکاح کے نتیجے میں بیوی کے جو حقوق لازم ہوتے ہیں، ان سے پہلو تہی نہ کریں، بلکہ دوسری بیوی کے حقوق کی ادائیگی اور دونوں میں برابری پر قدرت ہو تو نکاح کریں، بصورتِ دیگر مذکورہ خاتون سے رابطہ ختم کردیں۔

"وإن تزوجت من غير كفء ففي النفاذ إن كان ضرر بالأولياء وفي عدم النفاذ ضرر بها بإبطال أهليتها، والأصل في الضررين إذا اجتمعا أن يدفعا ما أمكن، وههنا أمكن دفعهما بأن نقول بنفاذ النكاح دفعاً للضرر عنها". (بدائع الصنائع  2/ 249)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200297

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں