بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چھٹی کرنے پر تن خواہ کی کٹوتی


سوال

کیا چھٹی کرنے پر تن خواہ کاٹی جاسکتی ہے؟ اور آدھی چھٹی لگانا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ کسی بھی ادارے کے ملازمین کی حیثیت شرعی طور پر اجیرِ خاص کی ہوتی ہے؛  کیوں کہ وہ وقت کے پابند ہوتے ہیں، اور  اجیرِ خاص  ملازمت کے مقررہ وقت پر حاضر رہنے سے اجرت (تن خواہ)  کا مستحق ہوتا ہے، اگر وہ  ملازمت کے اوقات میں  حاضر نہیں  رہا یا تاخیر سے آیا  تو اس   غیر حاضری اور تاخیر کے بقدر تن خواہ  کا وہ مستحق نہیں ہوتا،   اس معاملہ کا  اصل تقاضا تو یہ ہے کہ جب ملازم  کام نہ کرے تو اس کا معاوضہ بھی نہ لے، یا جتنی تاخیر سے آئے اس تاخیر کے بقدر تن خواہ وصول نہ کرے ، لیکن  شریعت نے طرفین کو اختیار دیا ہے کہ  تن خواہ کے بارے میں باہمی رضامندی سے چھٹی یا تاخیر  کی صورت میں جو جائز ضابطہ بناکر آپس میں طے کرلیں اس کی شرعاً بھی اجازت ہوگی۔

لہذا اگر ادارے کا یہ ضابطہ ہے کہ ملازم کی غیر حاضری پر اس دن کی تن خواہ کاٹی جائے گی تو  اس کا یہ ضابطہ غیر شرعی نہیں ہے، البتہ اگر ادارے نے ضابطہ کے مطابق استحقاقی چھٹیاں رکھی ہوں، تو استحقاقی چھٹی کرنے پر ملازم کی تن خواہ کاٹنا وعدہ خلافی ہوگی، جو گناہ ہے۔

باقی آدھی چھٹی لگانے سے کیا مقصد ہے ؟ اگر مقصد یہ ہو کہ تاخیر سے آنے پر خواہ وہ آدھے دن سے کم ہی کیوں نہ ہو  ایک دن کی آدھی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے تو شرعاً یہ جائز نہیں ہے، اس لیے ملازم نے جتنا وقت دیا ہے اتنے وقت کی تن خواہ کا تو وہ مستحق ہے ، بلکہ اس کی  جائز  صورت یہ ہے کہ  ملازم کی ماہانہ تن خواہ کو  اس کی ملازمت کے مکمل وقت (مثلاً صبح 8 سےشام 5 بجے تک وغیرہ)میں تقسیم کردیا جائے، پھر جس دن کوئی ملازم ملازمت کے وقت تاخیر سے آئے تو  اس کی تن خواہ  میں سے صرف اس تاخیر کے بقدر کٹوتی کی جاسکتی ہے۔

مشکاۃ المصابیح  میں ہے:

"وعن عمرو بن عوف المزني عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «الصلح جائز بين المسلمين إلا صلحاً حرم حلالاً أو أحل حراماً، والمسلمون على شروطهم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً» . رواه الترمذي وابن ماجه وأبو داود وانتهت روايته عند قوله: «شروطهم»".(1/253، باب الافلاس والانظار، الفصل الثانی، ط: قدیمی)

     فتاوی شامی میں ہے:

"وليس للخاص أن يعمل لغيره، ولو عمل نقص من أجرته بقدر ما عمل، فتاوى النوازل.

(قوله: وليس للخاص أن يعمل لغيره) بل ولا أن يصلي النافلة. قال في التتارخانية: وفي فتاوى الفضلي وإذا استأجر رجلاً يوماً يعمل كذا، فعليه أن يعمل ذلك العمل إلى تمام المدة ولا يشتغل بشيء آخر سوى المكتوبة، وفي فتاوى سمرقند: وقد قال بعض مشايخنا: له أن يؤدي السنة أيضاً. واتفقوا أنه لا يؤدي نفلاً، وعليه الفتوى ... (قوله: ولو عمل نقص من أجرته إلخ) قال في التتارخانية: نجار استؤجر إلى الليل فعمل لآخر دواة بدرهم وهو يعلم فهو آثم، وإن لم يعلم فلا شيء عليه، وينقص من أجر النجار بقدر ما عمل في الدواة".(6/70،  کتاب الاجارۃ، ط: سعید)

شرح المجلۃ میں ہے:

 "لایجوز لأحد  أن یاخذ  مال أحد  بلا سبب شرعي".(1/264،  مادۃ: 97، ط: رشیدیہ)

      البحر الرائق میں ہے:

"وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. والحاصل أن المذهب عدم التعزير بأخذ المال".(5/41، فصل فی التعزیر،  ط:  سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200075

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں