بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

چھالیہ، ماوی، سفینہ کے کاروبار اور اسمگلنگ کا شرعی حکم


سوال

چھالیہ بنام دوئم سپاری، اسمگلنگ کوئٹہ ٹو  کراچی کیسا ہے؟ کیا یہ کاروبار جائز ہے؟ جس میں سفینہ چارگرام اور ماوی بھی شامل ہے اور کیایہ کاروبار حلال ہے؟

جواب

واضح رہےناجائز اشیاء کی اسمگلنگ ناجائز  اورجائز کی فی نفسہ جائز ہے، لیکن جب عوام الناس کے مفاد  کی خاطر حکومتی سطح پر جائز اشیاء  کی اسمگلنگ ممنوع ہو تو  اس سے اجتناب  ضروری ہے؛ کیوں کہ کسی بھی ریاست میں رہنے والا شخص اس ریاست میں رائج قوانین پر عمل درآمد کا (خاموش)  معاہدہ کرتاہے، اور جائز امور میں معاہدہ کرنے کے بعد اسے پورا کرنا دیانتًا  ضروری ہوتاہے؛  اس طرح کے جائز امور  سے متعلق قانون کی خلاف ورزی گویا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے، اور معاہدے کی خلاف ورزی سے شریعت نے منع کیا ہے۔ نیز قانون شکنی کی صورت میں  مال اور عزت کا خطرہ رہتا ہے، اور پکڑے جانے کی صورت میں مالی نقصان کے ساتھ ساتھ سزا ملنے کا بھی اندیشہ ہوتا ہے،  اور اپنے آپ کو ذلت  کے مواقع سے بچانا شرعًا ضروری ہے۔

بصورتِ مسئولہ چھالیہ (سپاری) کا  کاروبار  فی نفسہ جائز ہے، لہذا ایک شہر سے چھالیہ خرید کر کسی اور شہر میں فروخت کرنا جائز ہے، لیکن قانونی طور پر  مفاد عامہ کے خاطر حکومتی سطح پر چھالیہ کی اسمگلنگ ممنوع ہے تو  اس سے گریز کرنا چاہیے؛ کیوں کہ قانون شکنی کی صورت میں مال اور عزت کا خطرہ رہتاہے ،البتہ چھالیہ کی اسمگلنگ سے جو نفع حاصل ہوگا وہ حلال ہوگا۔ تاہم  ماوا  اور سفینہ یہ دونوں گٹکے کی اقسام میں  سے ہیں (جو ایک قسم کامصالحہ ہے جس  میں جوز تری ،پستہ،لونگ،الائیچی،سرخ مٹی ،تیزاب ،چونا اور دیگر کیمائی نشہ آور مادےاستعمال کیے جاتےہیں،ماہرین طب کےمطابق اس کےاستعمال سے جبڑے ،مسوڑےاور معدہ متاثر ہوتاہےاور منہ کے کینسر کا باعث بنتا ہے) اور یہ دونوں مضر صحت  ہیں، لہٰذا ان کے کاروبار سے اجتناب ضروری ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"و الحاصل أن جواز البیع یدور مع حل الانتفاع."

(باب بيع الفاسد، ج:5، ص:69، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الأشباه في قاعدة: الأصل الإباحة أو التوقف، ويظهر أثره فيما أشكل حاله كالحيوان المشكل أمره والنبات المجهول.

قلت: فيفهم منه حكم النبات الذي شاع في زماننا المسمى بالتتن فتنبه.

 (قوله: ربما أضر بالبدن) الواقع أنه يختلف باختلاف المستعملين ط (قوله: الأصل الإباحة أو التوقف) المختار الأول عند الجمهور من الحنفية والشافعية كما صرح به المحقق ابن الهمام في تحرير الأصول (قوله: فيفهم منه حكم النبات) وهو الإباحة على المختار أو التوقف. وفيه إشارة إلى عدم تسليم إسكاره وتفتيره وإضراره، وإلا لم يصح إدخاله تحت القاعدة المذكورة ولذا أمر بالتنبه."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط:ایچ ایم سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بیع غیر الخمر ) ومفاده صحة بیع الحشیشة و الأفیون."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:454، ط:ایچ ایم سعید)

تفسیر قرطبی میں ہے:

{ ولا تلقوا بأيديكم إلى التهلكة } الآية :195
التقدير لاتلقوا أنفسكم بأيديكم كما تقول : لاتفسد حالك برايك و التهلكة (بضم اللام) مصدر من هلك يهلك هلاكًا و هلكًا و تهلكةً أي لاتأخذوا فيما يهلككم
وقال الطبري : قوله و لاتلقوا بأيديكم إلى التهلكة عام في جميع ما ذكر لدخوله فيه إذ اللفظ يحتمله."

(سورة البقرة،ج:2،:359،ط:دارالکتب العلمیة)

قرآن مجید میں ہے:

{واوفوا بالعهد فإن العهد كان مسئولا} [الإسراء، رقم الآية:34]

ترجمہ: عہد کو پورا کرو؛ کیوں کہ قیامت کے دن عہد کے بارےمیں انسان جواب دہ ہوگا۔

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي هريرة أنّ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال آية المنافق: ثلاث إذا حدّث كذب، و إذا وعد أخلف، و إذا أوتمن خان". (صحیح مسلم، رقم الحدیث:210)

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأنّ طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض، فكيف فيما هو طاعة؟"

(كتاب السير، فصل فى أحكام البغاة، ج:9، ص :453، ط:دارالحديث. القاهرة)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110201523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں