بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چھ ماہ کے حمل کو ضائع کرنے پر ضمان کا حکم


سوال

ایک عورت کا حمل  چھ مہینوں کا ہے،  لیکن ڈاکٹری رپورٹ کے مطابق اس کے سر میں زخم ہے، ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اس کا اسقاط کرنا پڑے گا اور ماں کو کوئی تکلیف بھی نہیں ہے اور انجکشن لگا کر والد کے اجازت سے حمل گرایا گیا ہے۔

 1-کیا اس کا اسقاط جائز ہے؟

2- قتل کی اقسام میں یہ کون سا قتل ہے؟

 3-ضمان کس پر ہوگا؟

جواب

1- چوں کہ حمل میں جان پڑ چکی تھی (یعنی حمل ٹھہرے ہوئے چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا تا) تو اس وقت اسقاطِ حمل کرنا حرام اور قتلِ نفس تھا، چاہے ڈاکٹروں کے کہنے کی وجہ سے اِسقاط ہو (بایں صورت کہ بچہ معذور ہوگا یا نہایت کم زور ہوگا، یا عجیب الخلقت ہوگا وغیرہ وغیرہ) یا ان کے کہے بغیر۔

2- حمل کو ساقط کرنا قتل کی پانچ اقسام میں سے کسی قسم میں داخل نہیں، بلکہ اسقاطِ حمل گناہ کی ایک مستقل قسم ہے،  یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے کتاب الجنایات میں جنین (رحمِ مادر میں موجود بچہ) کے اَحکام کے بارے میں مستقل باب قائم کیا ہے اور شریعت میں اس کے اَحکام بھی قتل کی دیگر اَقسام کے اَحکام کے علاوہ ہیں، مثلاً اگر کوئی شخص کسی حاملہ عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس سے بچہ ساقط ہوجائے تو باجماعِ امت مارنے والے پر اس کی دیت میں غرہ یعنی ایک غلام یا اس کی قیمت (پانچ سو درہم) واجب ہوتی ہے۔

3- مذکورہ صورت میں ضمان کسی پر بھی نہیں آئے گا؛ کیوں کہ بیوی نے شوہر کی اجازت سے ساقط کردیا تھا۔

وفي رد المحتار لابن عابدين:

"وفي الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد وصوله إلى الرحم، قالوا: إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لايباح لها، وقبله اختلف المشايخ فيه، والنفخ مقدر بمائة وعشرين يوماً بالحديث، قال في الخانية: ولاأقول به لضمان المحرم بيض الصيد؛ لأنه أصل الصيد، فلا أقل من أن يلحقها إثم، وهذا لو بلاعذر". (كتاب الحظر والإباحة، باب الاستبراء وغيره، ج: 6 / 374، ط: سعيد)

وفيه أيضًا:

"وفي الخانية: قالوا: إن لم يستبن شيء من خلقه لاتأثم، قال – رضي الله عنه -: ولا أقول به إذ المحرم إذا كسر بيض الصيد يضمن؛ لأنه أصل الصيد، فلما كان مؤاخذاً بالجزاء ثمة فلا أقل من أن يلحقها إثم هنا إذا أسقطت بلا عذر، إلا أنها لاتأثم إثم القتل، ولايخفى أنها تأثم إثم القتل لا استبان خلقه وما بفعلها". (كتاب الجنايات، فصل في الجنين، 6/591، ط: سعيد)

معارف القرآن میں مفتی محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں:

’’چار ماہ کے بعد اسقاط حمل قتل کے حکم میں ہے:

مسئلہ: بچوں کو زندہ دفن کردینا یا قتل کردینا سخت گناہِ کبیرہ اور ظلمِ عظیم ہے اور چار ماہ کے بعد کسی حمل کو گرانا بھی اسی حکم میں ہے؛ کیوں کہ چوتھے مہینے میں حمل میں روح پڑ جاتی ہے اور وہ زندہ انسان کے حکم میں ہوتا ہے، اسی طرح جو شخص کسی حامل عورت کے پیٹ پر ضرب لگائے اور اس سے بچہ ساقط ہوجائے تو باجماعِ امت مارنے والے پر اس کی دیت میں غرہ یعنی ایک غلام یا اس کی قیمت واجب ہوتی ہے اور اگر بطن سے باہر آنے کے وقت زندہ تھا، پھر مرگیا تو پوری دیت بڑے آدمی کے برابر واجب ہوتی ہے، اور چار ماہ سے پہلے اسقاطِ حمل بھی بدونِ اضطراری حالات کے حرام ہے، مگر پہلی صورت کی نسبت کم ہے؛ کیوں کہ اس میں کسی زندہ انسان کا قتل صریح نہیں ہے‘‘۔ (ج:8/682، ط: مکتبہ معارف القرآن)

وفي الفتاوى الهندية:

’’والمرأة إذا ضربت بطن نفسها، أو شربت دواء لتطرح الولد متعمدةً، أو عالجت فرجها حتى سقط الولد ضمن عاقلتها الغرة إن فعلت بغير إذن الزوج، وإن فعلت بإذنه لايجب شيء، كذا في الكافي". (كتاب الجنايات، الباب العاشر في الجنين، 6/35، ط: ماجدية) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200395

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں