میری والدہ کا چھ سال پہلے انتقال ہو گیا تھا، اب میرے خاندان میں کسی اور کا انتقال ہوا ہے، تو لوگوں کا کہنا ہے کہ میں اسے اپنی ماں کی قبر میں ہی دفنا دوں، تو کیا میں قبر کھلوا کر ایسا کر سکتا ہوں؟ یا قبر کھلوانے کی کوئی مدت ہے؟
صورتِ مسئولہ میں اگر آپ کی والدہ کی قبر بوسیدہ ہوکر مٹ نہیں گئی ہے تو ایسی صورت میں آپ کے لیے ان کی قبر کشائی کر کے دوسری میت کو دفنانا جائز نہیں، اور کسی کا اس حوالے سے آپ کو مجبور کر نا بھی درست نہیں، البتہ اگر ان کی قبر بوسیدہ ہوگئی ہو اور ان کا بدن فنا ہو چکا ہو، یا دوسرے مردے کو دفن کرنے کی کوئی اور جگہ نہ بچی ہو تو ایسی صورت میں مجبوراً دوسری تدفین آپ کی والدہ کی قبر میں کرنے کی اجازت ہوگی، تاہم ان کے جسم کی باقیات جمع کرکے علیحدہ قبر میں رکھ دی جائیں، نیز مجبوراً دوسری میت کی تدفین کی صورت میں اگر آپ کی والدہ کا جسم سالم نکلے تو اس صورت میں نئی اور پرانی میت کے درمیان مٹی کی آر بنانا ضروری ہوگا۔
مراقي الفلاح میں ہے:
"ولا بأس بدفن أكثر من واحد" في قبر واحد "للضرورة" قال قاضيخان "ويحجز بين كل اثنين بالتراب" هكذا أمر رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض الغزوات ولو بلي الميت وصار تراباً جاز دفن غيره في قبره، ولايجوز كسر عظامه ولا تحويلها ولو كان ذمياً، ولاينبش وإن طال الزمان".
حاشية الطحطاوي علی المراقيمیں ہے:
"قوله: "ولو كان ذميا".... وسئل أبو بكر الأسكافي عن المرأة تقبر في قبر الرجل؟ فقال: إن كان الرجل قد بلي ولم يبق له لحم ولا عظم جاز، وكذا العكس، وإلا فإن كانوا لايجدون بداً يجعلون عظام الأول في موضع، وليجعلوا بينهما حاجزاً بالصعيد اهـ". (حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح، كتاب الصلاة، باب أحكام الجنائز، فصل في حملها و دفنها، ص: ٦١٢ - ٦١٣) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008201993
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن