بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری یا رشوت کی رقم کو حلال تنخواہ سے ملا کر استعمال کرنے کا حکم


سوال

ایک شخص کسی جگہ پر نوکری کرتا ہے، اسی جگہ سے وہ رشوت لیتا ہے یا چوری کرتا ہے اور اپنی تنخواہ والی رقم جو کہ حلال ہے اور رشوت یا چوری والی رقم دونوں کو اکٹھا اپنے گھر والوں پر خرچ کرتا ہے تو کیا اس کی چوری یا رشوت والی رقم اور تنخواہ والی رقم حرام ہو جائے گی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں چوری اور رشوت دونوں شرعاً حرام ہے اور رشوت اور چوری میں جو رقم لی جائے اس کو اس کے مالکان کو واپس لوٹانا ضروری ہے، اگر مالکان دنیا میں نہ ہوں تو ان کے شرعی ورثاء تک اس رقم کا پہنچانا ضروری ہے اور اگر مالکان یا ان کے ورثاء کا کسی بھی طرح علم نہ ہوسکے تو چوری اور رشوت میں لی گئی رقم کو ان کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے؛ تاکہ اس کا ثواب ان مالکان کو پہنچے، اگر اس طریقہ کار کے مطابق عمل نہیں کیا تو بندوں کا حق باقی رہ جائے گا جو آخرت میں دینا ہوگا اور آخرت میں دینا بہت مشکل ہے۔

باقی ایسی حرام رقم کا استعمال خود اپنی ذات کے اوپر کرنا بھی جائز نہیں، اور اپنے اہل وعیال یا کسی اور پر بھی خرچ کرنا جائز نہیں۔

نیز جتنی رقم تنخواہ والی ہوگی وہ رقم حلال ہے،  خود اس کا اور اس کے گھر والوں کے لیے تنخواہ والی رقم کا استعمال کرنا جائز ہے۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"وقال النبي صلى الله عليه وسلم: «إن أطيب ما أكلتم من كسب أيديكم، وإن أخي داود كان يأكل من كسب يده». والمراد الإشارة إلى قوله تعالى: {كلوا من طيبات ما رقناكم}  [البقرة: 57] (ج: 30، ص: 248، كتاب الكسب، ط: دار الكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". (ج:5، ص: 99، مطلب فيمن ورث مالاً حراماً، ط: سعيد)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وقسم يحتاج إلى التراد وهو حق الآدمي، والتراد إما في الدنيا بالاستحلال أو رد العين أو بدله، وإما في الآخرة برد ثواب الظالم للمظلوم أو إيقاع سيئة المظلوم على الظالم". (ج: 1، ص: 121، باب الكبائر، ط: امداديه ملتان)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012201383

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں