بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کی رقم مالکان کو واپس کرنا لازم ہے


سوال

میں ایک ادارے میں کام کرتا تھا، چار سال پہلے میں نے وہ ادارہ چھوڑ دیا، میرے پاس وہاں پیسوں کا لین دین تھا، میں نے کئی بار وہاں چوری سے پیسے نکالے جن کا مالکان کو علم نہیں تھا،مجھے وہ رقم یاد نہیں ، اب اگر یہ بات میں مالکان کو بتاتاہوں تو لڑائی ہوتی ہے ، مجھے کیا کرناچاہیے ؟

جواب

اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمادیں تو یہ سعادت کی بات ہے، لہذا اولاً صدقِ دل سے  اس گناہ سے سائل کو سچی توبہ کرنی چاہیے، نیز جن لوگوں کا مال ناحق طریقہ سے لیا ہے،  مثلاً چوری کی ہے، اور وہ افراد زندہ ہیں، تو سائل پر لازم ہے کہ اگر پیسے حتمی طور پر یاد نہیں ہیں تو ایک محتاط اندازہ لگاکر اس سے کچھ زیادہ رقم ان افراد کو واپس لوٹادے، البتہ اگر  ان کو بتانے میں عار محسوس ہوتی ہویاکسی فساد کا اندیشہ ہوتو یہ بھی گنجائش ہے کہ وہ رقم ان مالکان کو کسی اور عنوان سے واپس کردیں، مثلاً ہدیہ اور تحفہ کے نام سے واپس کردیں، یا ان کو کوئی چیز ان کے واجب حق کے برابر قیمت والی فروخت کرکے بعد میں قیمت معاف کرکے  کہہ دیں کہ ہدیہ میں دی ہے، غرض نیت تو واجب حق ادا کرنے کی ہو، لیکن دینے کا عنوان ہدیہ وغیرہ ہو تویہ  جائز ہے، اصل مقصد حق دار کو حق پہنچانا ہے۔

نیز  جب مالکان زندہ ہیں تو  رقم ان کی جانب سے صدقہ کرنا درست نہ ہوگا،  بلکہ کسی بھی عنوان سے ان تک پہنچانا لازم ہوگا۔ 

فضیلت والی صورت تو یہی ہے جو گزر گئی، البتہ اگر مالی استطاعت اتنی نہ ہو کہ سب واجبات ادا کرسکیں تو مناسب موقع دیکھ کر اجمالی طور پر (چوری وغیرہ کی صراحت کیے بغیر) صاحبِ حق سے اپنی زیادتیوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگ لینی چاہیے۔ مثلاً خوشی کے موقع پر یوں کہہ دیا جائے کہ مجھ سے زندگی میں آپ کے حق میں جو بھی زیادتی یا کوتاہی ہوئی ہے میں دل سے معافی چاہتاہوں، اس پر اگر صاحبِ حق دل سے معاف کردے تو امید ہے کہ معافی ہوجائے گی۔

’’فتاوی شامی‘‘  میں ہے:

"والحاصل: أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لايحل له ويتصدق به بنية صاحبه". (5/99، مَطْلَبٌ فِيمَنْ وَرِثَ مَالًا حَرَامًا، ط: سعید)  

وفیه أیضاً:

"والأصل أن المستحق بجهة إذا وصل إلى المستحق بجهة أخرى اعتبر واصلاً بجهة مستحقة إن وصل إليه من المستحق عليه وإلا فلا.

(قوله: إن المستحق بجهة) كالرد للفساد هنا، فإنه مستحق للبائع على المشتري، ومثله رد المغصوب على المغصوب منه. (قوله:بجهة أخرى) كالهبة ونحوها.

(قوله:وإلا فلا) أي وإن لم يصل من جهة المستحق عليه، بل وصل من جهة غيره فلايعتبر". (5/92سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200415

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں