بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری کی بجلی مسجد میں استعمال کرنا


سوال

میں جس مسجد میں امامت کرتاہوں، وہاں بجلی کا میٹر نہیں ہے،  چوری کی بجلی یعنی کنڈا لگا ہوا ہے تو اس صورت میں نماز  اور بیان کے لیے اسپیکر کے استعمال کاکیا حکم ہے؟ اور دیگر مسجد کی اشیاء کا اور مسجد کے ساتھ متصل میرا گھر ہے اس میں بھی یہی چوری کی بجلی ہے، ان تمام باتوں کا جواب بحوالہ ارسال فرمائیں!

جواب

مسجد میں چوری کی بجلی کا استعمال (سوال میں مذکورہ تمام چیزوں میں ) کرنا  ناجائز  اور گناہ ہے،مسجد کے ذمہ داروں اور آپ کو   چاہیے کہ اس کو ختم کروا کر قانونی بجلی حاصل کریں۔البتہ جو نمازیں اس  بجلی کی روشنی میں پڑھی گئی ہیں،وہ ہوگئی ہیں، ان کو دہرانے کی ضرورت نہیں۔ '' امداد الفتاویٰ'' میں ہے:

'' مسجد میں چوری کی بجلی کا استعمال بالکل ناجائز ہے؛ تاہم اُس کی روشنی اور پنکھے کی ہوا سے نماز میں خرابی نہیں آتی''۔ (امداد الفتاویٰ ۴/۱۴۷)

'' لایجوز التصرف في مال غیره بلا إذنه ولا ولایته ''۔ (ردالمحتار علی الدرالمختار، الغصب ، فیما یجوز من التصرف بمال الغیر بدون إذن صریح ، زکریا ۹/۲۹۱، کراچی ۶/۲۰۰،) فقط واللہ اعلم

قال الحافظ عماد الدین إسماعیل بن کثیر القرشي: قال ابن عباس رضي اللّٰہ عنہما: أمرہم بالإنفاق من أطیب المال وأجودہ وأنفَسہ، ونہاہم عن التصدق برذالۃ المال أو دنیئتہ، وہو خبیثہ؛ فإن اللّٰہ لا یقبل إلا طیبًا۔ (تفسیر ابن کثیر ۱؍۳۲۰ البقرۃ: ۲۶۷ سہیل أکیڈمي لاہور)


فتوی نمبر : 143909201054

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں