بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چوری سے توبہ کرنے والا فقیر ہوچکا ہو تو وہ حق داروں کا حق کس طرح ادا کرے؟


سوال

 زید جو کہ ایک چور تھا اس نے بالغ ہونے سے پہلے اور کچھ بالغ ہونے کے بعد بہت سی چوریاں کی تھیں،  لیکن اللہ نے اسے ہدایت دی تو اب اس نے توبہ کر لی،  اللہ نے گر چہ اسے معاف کر دیا ہو، لیکن جن حضرات کے یہاں اس نے چوری کی ان کے حق زید کے ذمہ باقی ہیں ،اور کچھ چوریاں اسے یاد بھی ہیں کہ میں نے کہاں کہاں چوری کی ہیں اور کچھ یاد بھی نہیں ہیں، اگر زید ان حضرات کے پاس جاکر اپنی چوری کا اظہار کرے تو بڑی دقت کی بات ہو جائے گی کیوں کہ

۱۔۔ وہ غریب ہے  اور ۲۔۔بدنامی اور مار پیٹ اور پولیس کا ڈر ۔

زیادہ تر اس نے چوریاں لوہا کا سامان، نقد پیسے، اور اپنے گھر میں بھی بہت کی ہے اور اس کے پاس کچھ بھی موجود نہیں ہے۔ لوہا جو کہ اس فوراً کباڑی کو بیچ دیا اور پیسے اس نے خرچ کر دیے ہیں، مسجد اور مدرسہ میں سے بھی زیادہ تر نقد پیسے  چرائے ہیں اور مسجد میں سے پنکھے لوہا وغیرہ اور اسی طرح مدرسہ میں سے بھی پنکھے وغیرہ لوہا اور پڑھنے والے بچوں کا بھی کچھ سامان چوری کیا، زید اب بہت بہت شرمندہ ہے کہ زید ان حضرات کا حق کیسے ادا کرے؟  لیکن زید بہت غریب ہے اور دوسری بات اس نے قران حفظ شروع کر دیا ہے وہ کام بھی نہیں کرتا ہے، اس کے پاس ان سب حضرات کا سامان یا مال اور مسجد سے چوری کیا ہوا مال واپس کرنے کی بالکل بھی گنجائش نہیں ہے؛ کیوں کہ چوریاں اس نے بہت ہی زیادہ تعداد میں کی ہیں ۔

جواب

اگر کسی شخص کو اللہ تعالیٰ اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ کی توفیق عطا فرمادیں تو یہ سعادت کی بات ہے، اب اسے چاہیے کہ صدقِ دل سے  گناہوں سے توبہ کرے، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگے،  گناہ ترک کردے، اور آئندہ کے بارے میں اس طرح نہ کرنے کا عزم کرے، اور اگر کسی کا ناحق مال کھایا ہو تو اس کا مال واپس کرنے کی فکر کرے۔

اگر کسی کا مال ناحق طریقہ سے لیا ہو ، مثلاً چوری، غصب، لوٹ،  وغیرہ سے  سے لیا ہو تو  سب سے پہلے اس کے چھٹکارے  کی اصل  صورت یہ ہے کہ جس سے مال حاصل کیا گیا تھا اگر وہ زندہ ہے تو اس کو،  ورنہ اس کے ورثاء کو خواہ وہ کہیں بھی ہوں پہنچایا جائے، اور اگر  ان کو بتانے میں عار محسوس ہوتی ہو تو یہ بھی گنجائش ہے کہ انہیں کسی اور عنوان سے واپس کردیں، مثلاً صاحبِ حق کا حق ہدیہ اور تحفہ کے نام سے واپس کردے ، یا اس کو کوئی چیز واجب الادا حق کے برابر قیمت والی فروخت کرکے بعد میں اس کو کہہ دےکہ آپ کو یہ چیز  ہدیہ میں دی ہے، غرض نیت تو واجب حق ادا کرنے کی ہو، لیکن دینے کا عنوان کچھ  بھی ہو تو جائز ہے، اصل مقصد حق دار کو حق پہنچانا ہے۔

لیکن اگراصل مالک بھی معلوم نہ ہوں اور  نہ ہی ان کے ورثاء معلوم ہوں تو ایسی صورت میں ان کے مال کو اصل مالک کی نیت سے صدقہ کردینا واجب ہے، اور صدقہ میں بھی یہ ضروری ہے مستحق لوگوں کودیا جائے۔

لیکن اگر  حق دار کا حق ضائع ہوگیا ہے اور نہ اصل حق موجود ہے اور نہ ہی اتنی استطاعت ہے کہ اربابِ حق کا حق ادا کرسکے، بلکہ اب ناجائز مال لینے والا یا کھانے والا خود فقیر ہوگیا ہے، حق ادا کرنے کے لیے اس کے پاس کچھ نہیں ہے تو اس صورت میں اس کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ سے توبہ واستغفار کرے ، اگر صاحبِ حق زندہ ہے تو اس سے حق معاف کرالے، اگر وہ خود نہیں تو اس کے ورثاء سے معافی مانگ لے، لیکن اگر حق دار یا اس کے ورثاء سے ملاقات ممکن نہ ہو تو اس کے لیے دعاءِ مغفرت اور استغفار کرے، صاحبِ  عذر کو اللہ تعالیٰ جانتے ہیں، اور ہر آدمی کے دل کے حال کو بھی خوب دیکھ رہے ہیں، اگر اللہ چاہیں گے تو اس کی نافرمانی کا گناہ معاف کردیں گے اور جس بندہ کا حق تلف کیا ہے اس سےقیامت کے دن معافی کا بندوبست بھی کردیں گے۔

(ماخوز از اسلامی معیشت کے بنیادی اصول، از مفتی عبد السلام چاٹگامی صاحب)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200347

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں