بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چند کنائی الفاظ کا حکم


سوال

1۔میری شادی کو 11 ماہ ہوئے ہیں، شادی کے شروع ہی سے میرے شوہر کی عادت ہے کہ وہ ایسے جملے استعمال کرتے ہیں:

1۔ ایسے گاڑی نہیں چلتی،  2۔ ایسی بات پر فارغ کر دیا جاتا ہے، 3۔ تمہیں اپنا یہی attitude رکھنا ہے تو بتا دو، میں اپنی لائف مزید خراب نہیں کر سکتا ۔

2۔ ایسے الفاظ سے طلاق ہونے کا خوف اور اندیشہ رہتا ہے، ان کے والدین میں بھی علیحدگی ہو چکی ہے، ایسے ہی الفاظ کے استعمال کی وجہ سے،  وہ بھی شادی کے 20 سال کے بعد، بلکہ ایک بیٹی کی شادی کے بعد، ایسے حالات،  مجھے کیا کرنا چاہیے؟  کیا ہر بار مفتی سے فتوی معلوم کرنا واجب ہے؟

 3۔ کیا ایسے شخص کے ساتھ رہنا بہتر ہے یا اس سے علیحدگی لے لینا بہتر ہے؟ کیا ایسی طلاق کی دھمکیوں کی وجہ سے خلع لینا جائز ہے؟ شریعت کے اس بارے میں کیا احکام ہیں؟

4۔اس میں میری راہ نمائی فرمائیں، ابھی بھی طبیعت کی ناسازی کی وجہ سے مجھے والدین کے گھر چھوڑ دیا ہے، کوئی خیر خیریت نہیں معلوم کی اور ایک ماہ بعد پھر وائس میسج بھیجا ہے کہ تم نے اپنا کنارہ کر لیا ہے، اگرہمیشہ کےلیے اپنی ماں کے گھر رہنا ہے تو مجھے بتا دو، اگر تمہارا جواب شام تک نہیں آیا تو میں ناہی سمجھوں گا، میں نے میسج وقت پر ملنے کے باوجود اپنے والدین کے مشورہ سے جواب نہیں دیا، اب کیا احکام ہیں؟ کیا یہ میسج طلاق کے حکم میں آتا ہے یا ایسے ہی لغو باتوں میں؟

جواب

1۔ اگر آپ کے شوہر نے آپ سے یہ جملے کہے ہیں:’’ایسے گاڑی نہیں چلتی‘‘، ’’ایسی بات پر فارغ کر دیا جاتا ہے‘‘،  ’’تمہیں اپنا یہی رویہ رکھنا ہے تو بتا دو‘‘، ’’میں اپنی زندگی مزید خراب نہیں کر سکتا‘‘  تو ان الفاظ سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

2۔  اگر آپ کے شوہر نے مذکورہ الفاظ کے علاوہ کوئی ایسا لفظ استعمال کیا جس کے بارے میں شک ہو کہ اس سے طلاق واقع ہوسکتی ہے تو اس کے بارے میں کسی مفتی سے پوچھ لیا کریں۔

3۔ ازدواجی زندگی پرسکون اور خوش گوار گزارنے  کے لیے ضروری ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں، نبی کریم ﷺ نے شوہرکو اپنی اہلیہ کے ساتھ حسنِ سلوک کی تلقین فرمائی ہے، چنانچہ ارشادِ نبوی ہے: تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی گھر والی کے ساتھ اچھا ہو اور میں اپنی گھر والی کے ساتھ تم میں سے سب سے بہتر ہوں۔ دوسری جانب بیوی کو بھی اپنے شوہر کی اطاعت اور فرماں برداری کا حکم دیا، ارشاد نبوی ہے :  (بالفرض) اگر میں کسی کو کسی کے سامنے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔

   لہذا آپ کے شوہر کو چاہیے کہ وہ طلاق کی دھمکیاں دینے سے باز رہیں، آپ بھی ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا دیں، طلاق یا خلع کا مطالبہ نہ کریں، آپ دونوں ایک دوسرے کو دل سے معاف کرکے خوش وخرم زندگی گزاریں۔

4۔اگر آپ کے شوہر نے آپ کو یہ وائس میسج کیا ہے کہ :’’تم نے اپنا کنارہ کر لیا ہے، اگرہمیشہ کےلیے اپنی ماں کے گھر رہنا ہے تو مجھے بتا دو، اگر تمہارا جواب شام تک نہیں آیا تو میں نہ ہی سمجھوں گا‘‘  تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوئی۔

بہرحال شوہر  کو ایسے جملوں سے احتیاط کرنی چاہیے،  لیکن جیسا کہ ذکر ہوا ہے کہ اب تک شوہر نےکوئی ایسا جملہ استعمال نہیں کیا ہے جس سے رشتہ ٹوٹ گیا ہو۔

"وعنعائشة قالت: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «خيركم خيركم لأهله وأنا خيركم لأهلي، وإذا مات صاحبكم فدعوه»، رواه الترمذي والدارمي".

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لو كنت آمراً أحداً أن يسجد لأحد لأمرت المرأة أن تسجد لزوجها». رواه الترمذي".

 (مشكاة المصابيح، كتاب النكاح، باب عشرة النساء ص: 281 ط: قديمي)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں