بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چند معروف لیکن غیر مستند روایات نامی کتاب کا مقصد


سوال

میں بیرونِ ملک  رہتا ہوں اور اصلاً پاکستانی ہوں، میں اسلام کے بارے میں زیادہ جاننا چاہتا ہوں؛  کیوں کہ میں اپنے ذہنی سکون کے لیے  آہستہ آہستہ اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں، داخلی اطمینان اور اس کے علاوہ روز مرہ کے اسلامی کاموں کے بارے میں بنیادی معلومات جو عام مسلمان پر لازم ہیں۔

میرا سوال یہ ہے کہ میرے پاس ایک مجموعہ حدیث کی  کتاب ہے جو عام طور پر مسلمانوں میں استعمال ہوتی ہے،  لیکن اس کی سند جانچ کے قابل ہے،  اس کتاب کا نام " چند معروف، لیکن غیر مستند احادیث " ہےاس کے مصنف، استاذالحدیث مفتی صداقت علی ہیں،  میں جاننا چاہتا ہوں کہ کیا اس کتاب میں موجود تمام احادیث کو  مستند کہہ سکتے ہیں اور ان کا حوالہ دے سکتے ہیں ؟ (تمام احادیث کا احترام کرتے ہوئے)

جواب

مختلف زمانوں میں بعض لوگوں کی طرف سے جانے اَن جانے میں رسول اللہ ﷺ کی طرف بہت سی باتیں منسوب کی جاتی رہی ہیں،اور انہیں احادیثِ مبارکہ کہہ کر پھیلایا جاتا رہا ہے، اگر یہ جانتے بوجھتے ہو تو یہ کبیرہ ترین گناہوں میں سے ہے، اور دین کی حفاظت کے لیے اس فتنے کا سدِّ باب از بس ضروری ہے؛ لہٰذا محدثین اور علماءِ کرام نے ہر زمانے میں اس فتنے کا پیچھا کیا اور اس کو رد کرتے رہے ہیں، اور ایسی روایات کی نشان دہی کرتے رہے ہیں،  جنہیں ان محدثٰین کی زبان میں "موضوع " کہا جاتا ہے،  اردو میں اسے "من گھڑت / غیر مستند "  کہا جاتا ہے، یعنی یہ وہ روایات ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کیا گیا، جب کہ ان کی نسبت آں حضرت ﷺ کی طرف کرنا درست نہیں ہے،  اور ایسی روایات کو حدیث کہہ کر بیان کرنا بھی درست نہیں۔

مذکورہ کتاب "چند معروف، لیکن غیر مستند روایات " کا مقصد بھی ان روایات کی نشان دہی کرنا ہے جنہیں نقل کرنا اور  ان کا حوالہ دینا درست نہیں ہے۔ کتاب کے مصنف کا مقصد بھی  عوام وخواص کو ان روایات کے بیان کرنے سے بچانا ہے؛ تاکہ ان روایات کو بیان کرنے میں احتیاط برتی جائے اور آگے بیان نہ کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200094

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں