بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چند احادیث کی تحقیق


سوال

درج ذیل حدیث کی سند صحیح ہے؟اگر ہوسکے تو مکمل ترجمہ کے لیے کوئی لنک بھی  بتادیں۔

الإِمام أحمد: حدثنا يحيى بن إسحاق، حدثنا يحيى بن أيوب، حدثني أبو قتيل قال: كنا عند عبد الله بن عمر وسئل أي المدينتين تفتح القسطنطينية أو رومية. قال: قال فدعا عبد الله بصندوق له حلق فأخرج منه كتاباً قال: فقال عبد الله بينا نحن حول رسول الله صلى الله عليه وسلم نكتب إذ سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم: أي المدينتين نفتح أولاً القسطنطينية أو رومية؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "مَدِينة هرَقلَ تُفْتَحَ أَولاً يعني القسطنطينية". إشارة منسوبة إلى الرسول صلى الله عليه وسلم إلى ما سيكون من خراب بعض البلدان وأسباب خراب كل بلد، وهي إشارة تضمنها حديث بين الوضع.  وقال القرطبي في التذكرة: وروي من حديث حذيفة بن اليمان عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "ويبدأ الخَرابُ في أطْراف الأرض حتى تَخْرِبَ مصرُ، ومصر آمنةٌ من الخراب حتى تخربَ البصرة، وخراب البصرة من الغرق، وخراب مصر من جفاف النيل، وخراب مكة وخراب المدينة من الجوع، وخراب اليمن من الجرَاد، وخراب الأبلَّةِ من الحصارِ، وخرَاب فارِسَ من الصَّعاليكِ، وخراب التركِ من الدَّيْلَم، وخراب الديلم من الأرْمَن، وخراب الأرمن من الخَزرِ، وخرابُ الخزر منَ التُرْكِ، وخراب الترك من الصَّواعِق، وخراب السند من الهِنْدِ، وخراب الهند من الصين، وخراب الصين من الرُّمُل، وخراب الحبشةِ من الرجفة، وخراب الزَوراءِ من السُّفْياني، وخراب الروحاءِ من الخَسْفِ وخراب العراق من القتل " . ثم قال ورواه أبو الفرج بن الجوزي قال وسمعت أن خراب الأندلس بالريح العقيم. فصل تعدد الآيات والأَشراط قال الإِمام أحمد: حدثنا حسن، حدثنا خلف يعني ابن خليفة، عن جابر، عن أبيه، عن عبد الله ابن عمر وقال: " دخلت على عبد الله بن عمر وهو يتوضأ مُنكَّساً فرفع رأسَه فنظر إِليَّ فقال ستٌّ فِيكم أَيتها الأمة مَوْت نبيكم قال فَكَأنَّما انتزعَ قلبي من مكانه " . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " واحدةٌ قال ويَفِيضُ المالُ فِيكُمْ حتى إِن الرجلَ ليُعْطَى عَشْرَةَ آلافٍ يظل يَسْخَطُها " . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اثنتين قال وفتنة تدخلُ بيتَ كل رجل مِنْكم " . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ثَلاَثٌ قال وموت كقُصاصَ الغَنم " . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أَربَعٌ وهدنَةٌ تكون بينكم وبين بني الأَصفَر فيجمعون لكم تِسعة أَشهرٍ كَقَدْر حَمْل الْمَرْأةِ ثم يكونون أولى بالعدل منكم " . قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اثنتان خمس " . قلت يا رسول الله أي مدينة تفتح القسطنطينية أو رومية؟ قال: قسطنطينية، وهذا الإِسناد فيه نظر من جهة رجاله ولكن له شاهد من وجه آخر صحيح، فقال البخاري: حدثنا الحميدي، حدثنا الوليد بن مسلم، حدثنا عبد الله بن العلاء بن يزيد، سمعت يزيد بن عبد الله أنه سمع أبا إدريس يقول سمعت عوف بن مالك رضي الله عنه يقول: أتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في غزوة تبوك وهو في قبة أدم فقال: " أعدُدْ سِتّاً بَيْنَ يَدَي الساعةِ موتي، ثم فَتْحُ بيتِ المقدس، ثم مُوتَانٌ يأخذكم كقُعاص الغنم، ثم استِفاضةُ المالِ حتى يُعطَى الرجلُ مائَةَ دينار فَيَظَلُ ساخِطاً، ثم فِتنةٌ لا تُبْقِي بَيْتاً من العَربِ إِلاَّ دَخَلَتْه، ثم هُدنةٌ تكون بَيْنكم وبين بني الأصفرِ فيَغْدرون فيأتونكم تحت ثمانين رايةً تحتَ كل رايةٍ اثنا عَشَرألْفاً " . ورواه أبو داود وابن ماجه والطبراني من حديث الوليد بن مسلم ووقع في رواية الطبراني، عن الوليد، عن بشر بن عبد الله فالله أعلم. 

جواب

مذکورہ سوال میں ایک نہیں ، بلکہ کئی روایات مذکور ہیں ، جن میں سے بعض  کو امام احمد رحمہ اللہ ، بعض کو امام بخاری رحمہ اللہ ، بعض کو امام ابن ماجہ رحمہ اللہ وغیرہ نے نقل کیا ہے ، پوری عبارت کا ترجمہ نقل کیا جارہا ہے، جس میں خود  روایات  کا حکم بھی موجود ہے ، ملاحظہ فرمائیں:

پہلی حدیث:

امام احمد رحمہ اللہ (مسندِ احمد میں لکھتےہیں): ہمیں یحیی بن اسحاق نے بیان کیا اور انہیں  یحیی  بن ایوب  نے، یحی   بن ایوب کہتے ہیں: مجھے ابوقتیل نے بیان کیا  کہ ہم عبد اللہ بن عمر  رضی اللہ عنہما کے پاس تھے کہ ان سے پوچھا گیا :  قسطنطینیہ اور رومیہ میں سےپہلےکونسا شہرفتح ہوگا؟راوی کہتے ہیں کہ عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے ایک صندوق منگوایاجس کے حلقے تھے،اور اس میں سے ایک خط نکالا، پھر عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم کےگرد(بیٹھے)لکھ رہے تھےکہ کہ رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: ہم  قسطنطینیہ اور رومیہ میں سے کس شہر کو پہلے فتح کریں گے؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ہرقل کا شہر یعنی قسطنطینیہ پہلے فتح ہوگا ، رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم کی جانب منسوب  اشارہ اس طرف ہے کہ عنقریب بعض شہروں کے اجڑنے اور ہرشہر کےاجڑنے کے اسباب ہوں گے نیز ضمنا اسی میں حدیث وضع کی طرف( بھی )اشارہ ہے۔

دوسری حدیث :

اور امام قرطبی (اپنی کتاب)التذکرۃ میں لکھتے ہیں :حضرت حذیفہ بن بمان رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اجڑنے کی ابتداء زمین کے مختلف حصوں میں ہوگی، یہاں تک کہ مصر اجڑے گا حالانکہ مصر  اجڑنے سے محفوظ شہر ہے،یہاں تک کہ بصرہ اجڑےگا، بصرہ کا اجڑنا ڈوبنے سے ہوگا اور مصر کے اجڑنےکی( ابتداء دریائے)نیل خشک ہونے سے ہوگی،مکہ کا اجڑنا(حبشہ) اور مدینہ کا اجڑنا بھوک سے ہوگا،  اور یمن کا اجڑنا ٹڈیوں کے ذریعے سے ہوگا،ایلہ کا اجڑنا محاصرہ کے ذریعے ہوگا، فارس کا اجڑنا غرباء کے ذریعے سے ہوگا،ترک قوم کا اجڑنادیلم سے، دیلم کا ارمن سے اور ارمن کا خزرسے، اور خزر کا اجڑنا ترک سے ہوگا،اور ترک کا اجڑنا گرجنے والی آسمانی بجلیوں کے ذریعے سے ہوگا،سندھ کا اجڑنا ہندوستان سے ،ہندوستان کا چین سے اور چین کا اجڑنا  رمل(ریت/بجري/معمولی بارش) کے ذریعے ہوگا،حبشہ کا اجڑنا زلزلہ کے ذریعے سے ہوگا، زوراء کا اجڑنا سفیانی کے ذریعے ہوگا،روحاء کا اجڑنا دھسنے کاذریعےاور عراق کا اجڑنا قتل کے ذریعے ہوگا۔
(مذکورہ روایت نقل کرنے کے بعد) امام  قرطبی لکھتے ہیں:امام ابو الفرج ابن جوزی رحمہ اللہ نقل کیا: اور میں نے سناہے کہ اندلس کا اجڑنا بانجھ ہوا/بے نفع ہوا کے ذریعے ہوگا۔

تیسری حدیث :

فصل:آیات وعلامات قیامت کامتعدد ہونا:امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہمیں حسن نے بیان کیا حلف بن حذیفہ سے  انہوں نے جابر سے اور جابر نے اپنے والد سے بیان کیا وہ حضرت عبد اللہ بن عمرر ضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ  کی خدمت میں حاضر ہوا  وہ سر جھکائے وضو کر رہے تھے، انہوں نے سر اٹھا کر میری طرف دیکھا اور فرمایا:چھ چیزیں تم میں ہونگیں اے امت! تمہارے نبی صلي اللہ علیہ وسلم کی موت،(یہ سننا تھا کہ) ایسا لگا جیسے کسی نے میرا دل کھینچ لیا ہو، رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(یہ )ایک(علامت ہوئی)، فرمایا:اور مال تم میں بہت ہوگا یہاں تک کہ ایک آدمی کو دس ہزار دیے جائیں گے وہ اس سے نارض (ہی)رہے گا، رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:(یہ)دو(علامتیں ہوئیں)، (پھر)فرمایا:اور ایسا فتنہ ہوگا جو تم میں سے ہر ایک شخص کے گھر میں داخل ہوگا،رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ)تین(علامتیں ہوئیں)، (پھر)فرمایا:بکر یوں کی گردن توڑ بیماری کی طرح موت ،رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ ) چار (علامتیں ہوئیں)، (پھر)فرمایا:تمہرے اور بنی الاصفر کے درمیان جنگ بندی (صلح)  ہوگی، وہ تمہارے لئے عورت کی مدت حمل کی طرح نو مہینے جمع ہوں گے،اور تم سے زیادہ انصاف کے حقدار ہوں گے، رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:( یہ)پانچ(علامتیں ہوئیں)،میں نے عرض کیا:اے اللہ کے رسول!کونسا شہر فتح ہوگا قسطنطینیہ یا رومیہ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قسطنطینیہ۔

(یہ سند رجال(راویوں) کے اعتبار سےقابل غور ہے، لیکن ایک دوسری سند سے اس کا صحیح شاہد موجود ہے( وہ شاہد یہ ہے):

چوتھی حدیث :

امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:حمیدی کہتے ہیں ہمیں ولید بن مسلم نے، انہیں عبد اللہ بن علاء بن یزید نے بیان کیا،عبد اللہ بن علاءبن یزید کہتے ہیں میں نے یزید بن علاء ، انہوں نےابو ادریس کو سنا وہ فرمار ہے تھے کہ میں نےعوف بن مالک رضی اللہ عنہ کو سنا وہ فرمارہے تھے:میں غزوہ تبوک کے موقع پر آپ صلي اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ،  آپ ایک  چمڑے کے خیمے میں تھے،آپ صلي اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت سے پہلے پہلے چھ(علامات) شمار کرلو، میری موت ،پھربیت المقدس کی فتح، پھر ایک وبا جو تم میں شدت سے پھیلے گی جیسے بکریوں میں طاعون پھیل جاتا ہے ،پھر مال کی کثرت یہاں ایک آدمی کو سو دینار دیے جائیں گے وہ نارض ہی رہے گا،پھر ایسا فتنہ جو عرب کے ہرگھر میں داخل ہو کر رہے گاںپھر تمہارے اور بنی الاصفر کے درمیان جنگ بندی(صلح) ہوگی ، لیکن وہ دغا کریں گے اور ایک عظیم لشکر کے ساتھ تم پر چڑھائی کریں گے، اس میں اسّی جھنڈے ہوں گے اور ہر جھنڈے کے ماتحت بارہ ہزار فوج ہو گی۔

مذکورہ حدیث امام ابوداود، امام ابن ماجہ اور امام طبرانی رحمہم اللہ نے ولید بن مسلم سے   روایت کی ہے،  البتہ امام طبرانی رحمہ اللہ کی روایت میں عن الولید عن بشر بن عبد اللہ(بعنی ولید کے بعد بشر بن عبد اللہ کا اضافہ ہے)۔

مذکورہ عبارت میں خود تمام روایات کا حکم  مذکور ہے ،ترجمہ کے بعد  حکم  بھی واضح ہوگیا ہے ۔

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144103200563

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں