بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چرس، بھنگ، نسوار اور سگریٹ کا حکم


سوال

چرس، بھنگ، سگریٹ، نسوار کیا یہ سب حرام ہیں؟ اگرحرام ہیں توکس سبب سے، کیوں کہ اکثر لوگوں کو ان کے استعمال سے کوئی نشہ نہیں آتا؟

جواب

1- چرس ایک نشہ آور مادہ ہے، اور نشہ کرنا اسلام میں حرام ہے؛ لہٰذا چرس پینا بھی حرام ہے۔

"عن أبي حازم عن عبد الله بن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: كل مسكر حرام وما أسكر كثيره فقليله حرام". (السنن الکبری)

افیون کا ادویہ میں استعمال ہونے کی وجہ سے اس کی کاشت جائز ہے۔ اور کسی دوائی بنانے والے کو یہ بیچنا جائز ہے، لیکن ایسا شخص جس کے بارے میں یقین ہو کہ یہ اس کو غلط مقصد میں استعمال کرے گا اسے فروخت کرنا  ناجائز ہے۔

مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

"افیون ، چرس ،بھنگ یہ تمام چیزیں پاک ہیں اوران کادوامیں خارجی استعمال جائزہے، نشہ کی غرض سے ان کو استعمال کرنا ناجائزہے۔مگران سب کی تجارت بوجہ فی الجملہ مباح الاستعمال ہونے کے مباح ہے،تجارت توشراب اورخنزیرکی حرام ہے کہ ان کااستعمال خارجی بھی ناجائزہے۔" (کفایت المفتی 9/129،ط:دارالاشاعت)

مفتی محمودحسن گنگوہی رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

"....افیون کی آمدنی سے جوزمین خریدکراس میں کاشت کرتے ہیں اس کاشت کی آمدنی کوحرام نہیں کہاجائے گا، ایسی آمدنی سے چندہ لینابھی درست ہے اوران کے یہاں کھاناپینابھی درست ہے"۔(فتاویٰ محمودیہ،عنوان :افیون کی تجارت اوراس کی آمدنی کاحکم،16/123،دارالاشاعت)

رہی بات چرس اور افیون کے استعمال سے بعض افراد کو نشہ نہ آنا، یہ عادت پڑجانے کی وجہ سے ہے،  کسی کی عادت کی وجہ سے حکم  تبدیل نہ ہوگا، جیساکہ شراب کی کسی کو ایسی عادت ہوجائے کہ اسے نشہ نہ آتا ہو، اس کے لیے بھی شراب حرام ہوگی۔

2- نسوار،  اور سگریٹ بیڑی وغیرہ  کا استعمال فی نفسہ مباح ہے، البتہ سگریٹ اور بیڑی منہ میں بدبو کا باعث ہونے کی وجہ سے ناپسندیدہ ہے، لہٰذا مذکورہ اشیاء اگر استعمال کی ہوں تو منہ صاف کرکے بدبو زائل کرکے نماز و تلاوت کرنا چاہیے۔ ان اشیاء میں ایسا نشہ نہیں ہوتا ہے جس کی وجہ سے عقل مغلوب ہو جائے؛ اس لیے اسے نشہ آور نہیں کہا جا سکتا، بلکہ ان کے استعمال کی عادت پڑجانے کی وجہ سے ان کا ترک مشکل ہوجاتاہے، اور جب ان اشیاء کا عادی ان چیزوں کا استعمال نہ کرے تو اسے سر میں درد ہوتاہے، یا مشکل پیش آتی ہے، جیساکہ بعض لوگوں کو چائے کی ایسی عادت ہوجاتی ہے۔

فتاوی رشیدیہ میں ہے:

’’سوال: حقہ پینا، تمباکو کا کھانا یا سونگھنا کیسا ہے؟ حرام ہے یا مکروہ تحریمہ یا مکروہ تنزیہہ ہے؟ اور تمباکو فروش اور نیچے بند کے گھر کا کھانا کیسا ہے؟

جواب: حقہ پینا، تمباکو کھانا مکروہِ تنزیہی ہے اگر بو آوے، ورنہ کچھ حرج نہیں اور تمباکو فروش کا مال حلال ہے، ضیافت بھی اس کے گھر کھانا درست ہے‘‘۔ ( کتاب جواز اور حرمت کے مسائل، ص: 552، ط: ادراہ صدائے دیوبند) 

حاشية رد المحتار على الدر المختار - (6 / 459):
"قلت: وألف في حله أيضاً سيدنا العارف عبد الغني النابلسي رسالة سماها الصلح بين الإخوان في إباحة شرب الدخان وتعرض له في كثير من تآليفه الحسان وأقام الطامة الكبرى على القائل بالحرمة أو بالكراهة فإنهما حكمان شرعيان لا بد لهما من دليل ولا دليل على ذلك فإنه لم يثبت إسكاره ولا تفتيره ولا إضراره بل ثبت له منافع فهو داخل تحت قاعدة الأصل في الأشياء الإباحة وأن فرض إضراره للبعض لايلزم منه تحريمه على كل أحد فإن العسل يضر بأصحاب الصفراء الغالبة وربما أمرضهم مع أنه شفاء بالنص القطعي". (کتاب الأشربة،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200877

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں