بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار ڈمپر کا مالک زکات کے پیسوں سے اپنا علاج کروا سکتا ہے یا نہیں؟


سوال

ایک شخص ہے جس کے پاس چار ڈمپر ہیں، جن کی آمدنی سے وہ گھر کے اخراجات پورے کرتا ہے، یہ شخص بیمار ہو گیا ہے اور فی الحال اس شخص کے پاس پیسے نہیں ہیں، تو کیا یہ شخص زکات کے پیسے کسی سے لے کر اپنا علاج کروا سکتا ہے ؟

جواب

اگر مذکورہ چاروں ڈمپر  کی آمدنی اس شخص کے گھر کے اخراجات میں خرچ ہو جاتی ہے اور آمدنی میں سے کچھ بچتا نہیں ہے تو یہ ڈمپر اس شخص کی ضرورتِ اصلیہ میں داخل ہیں، لہٰذا اگر مذکورہ شخص کے پاس ان ڈمپروں کے علاوہ اور کوئی مال (خواہ رقم ہو یا ضرورت سے زائد سامان) نہیں ہے تو اس شخص کے لیے علاج کے واسطے زکات  کی رقم لے کر اس رقم سے اپنا علاج کروانا جائز ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 347):

"(و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لاتساوي مائة درهم.

 (قوله: فارغ عن حاجته) قال في البدائع: قدر الحاجة هو ما ذكره الكرخي في مختصره فقال: لا بأس أن يعطي من الزكاة من له مسكن، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة؛ لما روي عن الحسن البصري قال: كانوا _ يعني: الصحابة _ يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.

وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لاتكفيه وعياله أنه فقير، ويحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف لايحل. وكذا لو له كرم لاتكفيه غلته ... وفيها عن الصغرى: له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لايسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح. وفيها: سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولاتكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفاً، وعليه الفتوى، وعندهما لايحل اهـ ملخصاً".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004201076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں