بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

چار رکعت کے بعد پانچویں کے لیے کھڑا ہوگیا


سوال

 اگر کوئی غلطی سے چار فرض کے بجائے چھ رکعت پڑھ لے اس نماز کا کیا حکم ہے؟

جواب

اس کی مسئلہ کی تفصیل یہ:

پہلی صورت یہ ہے کہ چار فرض پڑھنے والا اگر قعدہ اخیرہ کیے بغیر کھڑا ہوگیا تو اگر اسے پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ جائے اور سجدہ  سہو  کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر پانچویں رکعت  کا سجدہ کرلیا  یا اس کے بعد چھٹی رکعت بھی پڑھ لی تو فرض نماز باطل ہوجائے گی،  فرض نماز دوبارہ پڑھنی ہوگی،  اور یہ نماز نفل ہوجائے گی۔

دوسری صورت یہ ہے کہ چار فرض پڑھنے والا  قعدہ اخیرہ/ مقدار تشہد بیٹھنے کے بعد غلطی سے کھڑا ہوگیا تو اگر اسے پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے یاد آجائے تو بیٹھ جائے اور سجدہ  سہو  کرلے تو نماز درست ہوجائے گی، لیکن اگر پانچویں رکعت  کا سجدہ کرلیا تو چھٹی رکعت بھی اس کے ساتھ شامل کرلے اور آخر میں سجدہ سہو کرلے تو چار فرض اور دو رکعت نفل بن جائے گی ۔ اگر سجدہ سہو نہ کیا تو  وقت کے اندر واجب الاعادہ ہوگی ۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2/ 85):
"(ولو سها عن القعود الأخير) كله أو بعضه (عاد) ويكفي كون كلا الجلستين قدر التشهد (ما لم يقيدها بسجدة)؛ لأن ما دون الركعة محل الرفض وسجد للسهو لتأخير القعود (وإن قيدها) بسجدة عامداً أو ناسياً أو ساهياً أو مخطئاً (تحول فرضه نفلاً برفعه) الجبهة عند محمد، ... (وضم سادسةً) ولو في العصر والفجر (إن شاء) لاختصاص الكراهة والإتمام بالقصد (ولايسجد للسهو على الأصح)؛ لأن النقصان بالفساد لاينجبر".

وفي رد المحتار:

"(قوله: لأن النقصان) أي الحاصل بترك القعدة لاينجبر بسجود السهو.
فإن قلت: إنه وإن فسد فرضاً فقد صح نفلاً ومن ترك القعدة في النفل ساهياً وجب عليه سجود السهو؛ فلماذا لم يجب عليه السجود نظراً لهذا الوجه؟ قلت: إنه في حال ترك القعدة لم يكن نفلاً، إنما تحققت النفلية بتقييد الركعة بسجدة والضم؛ فالنفلية عارضة ط

(وإن قعد في الرابعة) مثلاً قدر التشهد (ثم قام عاد وسلم) ولو سلم قائماً صح؛ ثم الأصح أن القوم ينتظرونه، فإن عاد تبعوه (وإن سجد للخامسة سلموا)؛ لأنه تم فرضه، إذ لم يبق عليه إلا السلام (وضم إليها سادسةً) لو في العصر، وخامسة في المغرب: ورابعة في الفجر، به يفتى (لتصير الركعتان له نفلا) والضم هنا آكد، ولا عهدة لو قطع، ولا بأس بإتمامه في وقت كراهة على المعتمد (وسجد للسهو) في الصورتين؛ لنقصان فرضه بتأخير السلام في الأولى وتركه في الثانية".

"وإن تذکر بعد ما قید الخامسة بالسجدة لایعود إلی القعدة ولایسلم بل یضیف إلیها رکعةً ویتشهد ویسلم ..." ( الهندیة 1/129)  (البحرالرائق 2/104)


فتوی نمبر : 144012200086

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں