بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پیغمبرکی طرف غلطی کی نسبت کرنا


سوال

میں نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے نکلا ہوا ہر لفظ وحی کے حکم میں نہیں تھا بلکہ قرآن کریم اور حدیث اور احکام کے معاملات میں آپ ﷺ کی بات وحی کے حکم میں ہے اور عام بشری زندگی میں آپ ﷺ کا قول وحی کے حکم میں نہیں ہے اور اس میں غلطی بھی ہو سکتی ہے اور بعض معاملات میں غلطی ہوئی بھی ہے. میں نے یہ بات پہلے کبھی نہیں سنی، اس بارے میں رہنمائی فرمائیں کہ اس بات کی کیا حقیقت ہے؟

جواب

                وحی کی کئی اقسام ہیں ،جن میں قرآن واحادیث مقدسہ شامل ہیں،ان کے علاوہ زندگی کے دیگرمعاملات میں حسب عادت بشری کاروباردنیاویہ وغیرہ کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ارشادات صادرفرماتے تھے،جن کاتعلق دینیات ،تفسیرکلام اللہ اورتبلیغ عن اللہ سے نہیں تھا،ان میں اجتہادی خطا کاامکان توتھا مگرانبیاء علیہم السلام چونکہ معصوم ہوتے ہیں اس لیے فوراً ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اصلاح کردی جاتی ہے،انبیاء کرام علیہم السلام اپنی اجتہادی خطاپرقائم نہیں رہتے۔لہذا ایسی نسبت انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف کرنانامناسب ہے۔

اس سلسلہ میں سابق مفتی اعظم پاکستان مفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کی تحریرنقل کی جاتی ہے جوانہوں نے معارف القرآن ،سورہ نجم کی تفسیرمیں لکھی ہے::

''یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی طرف سے باتیں بناکراللہ کی طرف منسوب کریں اس کاقطعاً کوئی امکان نہیں،بلکہ آپ جوکچھ فرماتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی کیاہواہوتاہے،وحی کی بہت سی اقسام احادیث بخاری سے ثابت ہیں،ان میں ایک قسم وہ ہے جس کے معنی اورالفاظ سب حق تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں،جس کانام قرآن ہے،دوسری وہ کہ صرف معنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتے ہیں ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس معنی کواپنے الفاظ میں ادافرماتے ہیں ،اس کانام حدیث اورسنت ہے،پھرحدیث میں جومضمون حق تعالیٰ کی طرف سے آتاہے کبھی وہ کسی معاملہ کاصاف اورواضح فیصلہ اورحکم ہوتاہے ،کبھی کوئی قاعدہ کلیہ بتلایاجاتاہے،جس سے احکام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اجتہادسے نکالتے اوربیان کرتے ہیں،اس اجتہادمیں اس کاامکان رہتاہے کہ کوئی غلطی ہوجائے ۔مگررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اورتمام انبیاء کی یہ خصوصیت ہے کہ جواحکام وہ اپنے اجتہادسے بیان فرماتے ہیں ان میں اگرکوئی غلطی ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بذریعہ وحی اس کی اصلاح کردی جاتی ہے ،وہ اپنے غلط اجتہادپرقائم نہیں رہ سکتے۔بخلاف دوسرے علماء ومجتہدین کے کہ ان سے اجتہادمیں خطاہوجائے تو وہ اس پرقائم رہ سکتے ہیں اوران کی یہ خطابھی عنداللہ صرف معاف ہی نہیں بلکہ دین کے سمجھنے میں جواپنی پوری توانائی وہ خرچ کرتے ہیں اس پربھی ان کوایک ثواب ملتاہے۔(معارف القرآن ،8/195،ط:مکتبہ معارف القرآن کراچی)

البتہ جہاں تک اس بات کاتعلق ہے کہ دنیاوی احکام میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی کیاحیثیت ہے؟اس بارے میں محدثین نے تفصیلی بحث کی ہے،جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اموردنیامیں وہ رائے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تصریح فرمادی ہوکہ میں نے بطورمشورہ اپنے خیال کااظہارکیاہے ،اوریہ رائے اس مقدمہ سے متعلق ہو جودین کے احکام سےے تعلق نہ رکھتاہو اس میں امت کواختیاردیاگیاہے کہ اپنی صوابدیدپرعمل کرسکتے ہیں ،جیسے کھجوروں کوگابہہ کرنے سے متعلق مسلم شریف کی روایت میں ہےکہ'' آپ نے فرمایامیں توبشرہوں جب میں تمہیں دین کی بات بتاوں تو اس پرکاربندہوجاواورجب کوئی بات میں اپنی رائے سے بتاوں تومیں بھی انسان ہوں''۔باقی جتنے بھی اوامرہوں یانواہی خواہ وہ دین سے متعلق ہوں یادنیاسے ان سب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع ضروری ہے کسی کوروگردانی اوررائے زنی کاحق حاصل نہیں ہے۔مفتی اعظم ہندمفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:

''سوال:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاوی کاموں میں امت کواختیاردیاہے؟

جواب:جوامورکہ خالص دنیوی حیثیت رکھتے ہیں اورشریعت سے کسی طرح ٹکرائے نہیں ان میں امت کواختیارہے کہ جوچاہے اپنے لیے پسندکرے۔(کفایت المفتی1/86)

اس مسئلہ سے متعلق مزیدتفصیل کے لیے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی کتاب''حجیت حدیث''صفحہ90 تا 98  ملاحظہ فرمائیں۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143704200012

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں