میں اینٹ کاکام کرتاہوں، طریقہ کار اس طرح ہےکہ ایک لاکھ اینٹ کی رقم نقداداکرتاہوں اوربھٹی والااینٹ تین یادوماہ بعداداکرے گا۔
شرائط:
یادرہے کہ بیع کے وقت اینٹ موجود نہیں ہے۔
کیااس طرح بیع ازروئے شریعت صحیح ہے؟ جب کہ تعامل لوگوں کااس طرزپر جاری ہے۔
صورتِ مسئولہ میں جب آپ بھٹی والے کو اینٹ بنوانے کا آڈر دیتے ہیں اور ، اور مال کی مقدار ، کوالٹی اور قیمت، سب طے ہوجاتی ہے اور لوگوں کو اس طرح کام کرنے کا تعامل ہے تو یہ اصطلاح میں ”استصناع“ کا عقد کہلاتا ہے،اگر یہ معاملہ آپسی رضامندی سے طے شدہ ہو اور مبیع اور ثمن میں کوئی جہالت نہ ہو، اور بعد میں فریقین میں نزاع کا اندیشہ نہ ہو، تو اگرچہ فی الحال اینٹیں موجود نہیں ہیں تب بھی شرعًا یہ معاملہ استحسانًا جائز ہے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"الاستصناع جائز في كل ما جرى التعامل فيه كالقلنسوة والخف والأواني المتخذة من الصفر والنحاس وما أشبه ذلك استحسانا كذا في المحيط ثم إن جاز الاستصناع فيما للناس فيه تعامل إذا بين وصفا على وجه يحصل التعريف أما فيما لا تعامل فيه كالاستصناع في الثياب بأن يأمر حائكا ليحيك له ثوبا بغزل من عند نفسه لم يجز كذا في الجامع الصغير وصورته أن يقول للخفاف اصنع لي خفا من أديمك يوافق رجلي ويريه رجله بكذا أو يقول للصائغ صغ لي خاتما من فضتك وبين وزنه وصفته بكذا وكذا لو قال لسقاء أعطني شربة ماء بفلس أو احتجم بأجر فإنه يجوز لتعامل الناس، وإن لم يكن قدر ما يشرب وما يحتجم من ظهره معلوما كذا في الكافي الاستصناع ينعقد إجارة ابتداء ويصير بيعا انتهاء قبل التسليم بساعة هو الصحيح كذا في جواهر الأخلاطي."
(3/ 207، کتاب البیوع، الباب التاسع عشر في القرض والاستقراض والاستصناع، ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200413
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن