بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پیسہ لگا کر ایڈ دیکھ کر کمانا


سوال

ایک ویب سائٹ جو روزانہ پیسے دیتی ہے، Click Pay Earnمختلف پیکج ہیں، 3000 سے 5 لاکھ تک۔  پیکج کے لیے ہمیں پیسے دینے پڑتے ہیں ،میں 10000 والا پیکج لیتا ہوں،جس میں 40 ایڈ دیکھنے پر 461 روپے ملتے ہیں۔ ویڈیو نہ دیکھوں تو پیسے نہ ملیں۔ ہمیں وقت بھی دینا پڑا ہےاور  انٹرنیٹ کا خرچہ بھی لگتا ہے۔  پیکج 3 ماہ  کے لیے ملتا ہے۔10000 پر 17000 بن جاتا ہے۔

ویڈیو صرف علماء کی ہوتی ہیں،مولانا طارق جمیل صاحب، رضا قادری وغیرہ کی، کسی نا محرم یا جانور کی ویڈیو بالکل نہیں ہوتی، کیا یہ جائز ہے؟

جواب

         اس طریقہ کار پر کام کرکے پیسہ کمانا درج ذیل وجوہات کی بنا پر ناجائز ہے:

  1. اس میں ایسے لوگ  اشتہارات کو دیکھتے ہیں  جن کایہ چیزیں لینے کا کوئی ارادہ ہی نہیں، جیسا کہ آپ ویڈیو میں مختلف اشتہار دیکھتے ہیں۔  بائع کو ایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جو کہ کسی طرح بھی خریدار نہیں، یہ بیچنے اور خریدنے والے کے ساتھ  ایک قسم کا دھوکا ہے۔
  2.  جان دار کی تصویر  کسی بھی طرح کی ہو، اور کسی کی بھی ہو، بلا ضرورت  اس کا دیکھنا جائز نہیں۔لہذا اس محنت کرنے  پر جو اجرت  لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔
  3. مزید یہ کہ آپ نے اس بات کی وضاحت نہیں کی اور نہ ہی اس ویب سائٹ پر اس قسم کی کوئی وضاحت موجود ہے کہ، لی جانے والی رقم کس مد میں لی جاتی ہے؟ اگر یہ محض پیکج کی قیمت ہے تو اس پیکج کے خریدنے کا حکم گزر چکا۔ اور اگر یہ کسی قسم کی سرمایہ کاری ہے،تو اس رقم سے کون سا  کاروبار کیا جاتا ہے؟ یہ بھی واضح نہیں۔

حدیث شریف میں ہے:

شعب الإيمان (2/ 434):

" عَنْ سَعِيدِ بْنِ عُمَيْرٍ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْكَسْبِ أَطْيَبُ؟ قَالَ: " عَمَلُ الرَّجُلِ بِيَدِهِ، وَكُلُّ بَيْعٍ مَبْرُورٍ ".

ترجمہ:آپ ﷺ سے پوچھا گیا  کہ سب سے پاکیزہ کمائی کو ن سی ہے؟تو آپ ﷺنے فرمایا: آدمی کا  خود  اپنے ہاتھ سے محنت کرنا اور ہر جائز اور مقبول بیع۔

شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (7/ 2112):

" قوله: ((مبرور)) أي مقبول في الشرع بأن لايكون فاسدًا، أو عند الله بأن يكون مثابًا به".

 لہٰذا  حلال کمائی کے لیے کسی بھی  ایسے طریقے کو اختیار کرنا چاہیے  کہ جس میں اپنی محنت شامل ہو ایسی کمائی زیادہ بابرکت ہوتی ہے۔    

شامی(6/ 63):

"مطلب في أجرة الدلال، قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم .

وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسداً؛ لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز ، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام".

الموسوعة الفقهية الكويتية (1/ 290):

"الإجارة على المنافع المحرمة كالزنى والنوح والغناء والملاهي محرمة، وعقدها باطل لا يستحق به أجرة . ولا يجوز استئجار كاتب ليكتب له غناءً ونوحاً ؛ لأنه انتفاع بمحرم ... ولا يجوز الاستئجار على حمل الخمر لمن يشربها ، ولا على حمل الخنزير". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104201037

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں