بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پیدائش کے فوری بعد بچے کے کان میں اذان نہ دینے کی صورت میں چار دن بعد اذان دینے کا حکم


سوال

ایک بچہ جو مسلمان کے گھر میں پیدا ہوا، ان کو اذان دینا یاد نہیں رہا، یا کوئی اذان دینے والا موجود نہیں تھا، اب بچہ چار دن کا ہوگیا، اب کیا کیا جائے؟ اذان دی جائے گی یا نہیں؟

جواب

نومولود بچے کو غسل دے کر پاک صاف کرنے کے فوراً بعد اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہنی چاہیے، دیر نہیں کرنی چاہیے، تاکہ دنیا میں آنے کے بعد سب سے پہلا کلمہ جو بچے کے کان میں پڑے وہ اللہ کا نام ہو، اور اذان و اقامت کی تخصیص اس لیے ہے کہ  بچے کے دل و دماغ میں نماز کی اہمیت جاگزیں ہو، اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اذان سے شیطان بھاگتا ہے،اور حدیث میں ہے کہ شیطان ولادت کے وقت بچے کو ستاتا ہے، جس سے بچہ چلاتا ہے، پس ولادت کے فوراً بعد بچے کے کان میں اذان دینا اس لیے بھی ہے تاکہ شیطان بھاگ جائے اور بچہ کو  پریشان نہ کرسکے، البتہ اگر کسی وجہ سے پیدائش کے فوراً بعد بچے کے کان میں اذان نہ دی جاسکی تو بعد میں بھی اذان دے دینی چاہیے چاہے جتنے دن گزر گئے ہوں؛ بچے کے کان میں اذان دینے کے لیے شریعت میں کوئی ایسا وقت مقرر نہیں ہے جس کے گزرنے سے اذان دینا فوت ہوجائے، لیکن بہرحال بلا وجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (7/ 2691):

" وعن أبي رافع - رضي الله عنه - قال: «رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم أذن في أذن الحسن بن علي - رضي الله عنهما - حين ولدته فاطمة بالصلاة» . رواه الترمذي، وأبو داود. وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح".

 (بالصلاة) . أي بأذانها وهو متعلق بأذن، والمعنى أذن بمثل أذان الصلاة وهذا يدل على سنية الأذان في أذن المولود وفي شرح السنة: روي أن عمر بن عبد العزيز - رضي الله عنه - كان يؤذن في اليمنى ويقيم في اليسرى إذا ولد الصبي. قلت: قد جاء في مسند أبي يعلى الموصلي، عن الحسين - رضي الله عنه - مرفوعاً: «من ولد له ولد فأذن في أذنه اليمنى وأقام في أذنه اليسرى لم تضره أم الصبيان»". كذا في الجامع الصغير للسيوطي رحمه الله. قال النووي في الروضة: ويستحب أن يقول في أذنه: "{وإني أعيذها بك وذريتها من الشيطان الرجيم} [آل عمران: 36]". قال الطيبي: ولعل مناسبة الآية بالأذان أن الأذان أيضاً يطرد الشيطان؛ لقوله صلى الله عليه وسلم:" «إذا نودي للصلاة أدبر الشيطان له ضراط حتى لايسمع التأذين»". وذكر الأذان والتسمية في باب العقيقة وارد على سبيل الاستطراد اهـ. والأظهر أن حكمة الأذان في الأذن أنه يطرق سمعه أول وهلة ذكر الله تعالى على وجه الدعاء إلى الإيمان والصلاة التي هي أم الأركان (رواه الترمذي، وأبو داود، وقال الترمذي: هذا حديث حسن صحيح) ".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200499

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں