بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پی آئی کوئن کا حکم


سوال

Pi network کے استعمال کا شرعی حکم ؟

جواب

PI Network کی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق PI Coin ایک قسم کی کرپٹو کرنسی ہے اور اس کا خاصہ  یہ ہے کہ یہ موبائل پر بھی مائن کی جاسکتی ہے۔صرف موبائل میں ایک ایپلیکیشن ڈاونلوڈ کرنی ہوگی اور ایک بٹن دبانے سے اس کرپٹو کرنسی کی مائنگ (پیداوار) شروع ہوجائے گی۔ اسی طرح دوسرے لوگوں کو اس ایپلیکیشن استعمال کرنے کے لیے انویٹیشن (دعوت نامہ) دینے پر بونس بھی ملتا ہے ۔ روزانہ کی بنیاد پر ایپلیکیشن استعمال کرنے والے کو PI Coin حاصل ہوں گے جو مستقبل میں جا کر دیگر کرپٹو کرنسی کی طرح فروخت ہوں گے۔

اس تمہید کے  بعد جواب ملاحظہ فرمائیں:

’’پی آئی کوائن‘‘  ہو یا کوئی اور ڈیجیٹل کرنسی، یہ محض ایک فرضی کرنسی ہے، اس میں حقیقی کرنسی کے بنیادی اوصاف اور شرائط بالکل موجود نہیں ہیں، لہذا موجودہ  زمانے میں " کوئن" یا "ڈیجیٹل کرنسی" کی خرید و فروخت کے نام سے انٹرنیٹ پر اور الیکٹرونک مارکیٹ میں جو کاروبار چل رہا ہے وہ حلال اور جائز نہیں ہے، وہ محض دھوکا ہے، اس میں حقیقت میں کوئی مادی چیز نہیں ہوتی، اور اس میں قبضہ بھی نہیں ہوتا صرف اکاؤنٹ میں کچھ عدد آجاتے ہیں، اور یہ فاریکس ٹریڈنگ کی طرح سود اور جوے کی ایک شکل ہے، اس لیے " پی آئی کوائن" یا کسی بھی " ڈیجیٹل کرنسی" کے نام نہاد کاروبار میں پیسے لگانا اور خرید و فروخت میں شامل ہونا جائز نہیں ہے۔

( تجارت کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا: 2/ 92)

فتاوی شامی میں ہے:

«(قوله: مالا أو لا) إلخ، المراد بالمال ما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصا عن الكشف الكبير.

وحاصله أن المال أعم من المتمول؛ لأن المال ما يمكن ادخاره ولو غير مباح كالخمر، والمتقوم ما يمكن ادخاره مع الإباحة، فالخمر مال لا متقوم،»....وفي التلويح أيضا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص، والمال ما من شأنه أن يدخر للانتفاع وقت الحاجة، والتقويم يستلزم المالية عند الإمام والملك...وفي البحر عن الحاوي القدسي: المال اسم لغير الآدمي، خلق لمصالح الآدمي وأمكن إحرازه والتصرف فيه على وجه الاختيار، والعبد وإن كان فيه معنى المالية لكنه ليس بمال حقيقة حتى لا يجوز قتله وإهلاكه.

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۰۱،ایچ ایچ سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200152

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں