بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

پہلی رکعت میں سورۃ الناس پڑھ لی تو بقیہ رکعتوں میں کیا پڑھے؟


سوال

1 .  4 رکعت نماز سنت میں اگر میں نے پہلی ہی رکعت میں بھول کر سورۃ  الناس پڑھ لی تو باقی کی 3 رکعتوں میں کیا پڑھوں گا؟

2.  اور فرضوں کی 2 رکعتوں میں سورۃ الناس پڑھ سکتے ہیں یانہیں یعنی 3 آیات ایک رکعت میں اور 3 آیات دوسری رکعت میں؟

3.   میں ایک مدرسہ میں بچوں کوپڑھاتا ہوں اور بچے انگریزوں والے بال کٹواکر آتے ہیں اور ہم سختی کرتے ہیں تو بچے دھمکی دیتے ہیں کہ ہم نکل جائیں گے،  اگر بچے نکل جاتے ہیں تو اس بارے میں ہم سے سوال ہوگا یا نہیں؟ اور ہم پھر بچوں کو بال کٹوانے کا بولیں یا نہ بولیں ؟

جواب

1۔ ۔باقی تین رکعتوں میں کسی بھی جگہ سے پڑھا جاسکتا ہے ، قرآن کی ترتیب کا خیال رکھنا صرف فرائض میں ضروری ہے ،سنن ونوافل میں نہیں۔ البتہ افضل یہ ہے کہ پہلی رکعت میں بھول کر سورۃ الناس پڑھ لی ہو تو بقیہ تمام رکعتوں میں سورۃ الناس ہی پڑھ لینی چاہیے۔

الدر المختار شرح تنوير الأبصار في فقه مذهب الإمام أبي حنيفة (1/ 546.547)
"وأن يقرأ منكوساً ... ولا يكره في النفل شيء من ذلك".

الجوهرة النيرة على مختصر القدوري (1/ 58):
"وإذا قرأ في الأولى ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ يقرأ في الثانية ﴿قل أعوذ برب الناس﴾ أيضاً".

2. اگر کوئی شخص سورۃ الناس کی تین آیتیں پہلی رکعت میں پڑھتا ہے اور بقیہ تین آیتیں دوسری رکعت میں پڑھتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے، اتنی مقدار پڑھ لینے سے نماز ہو جائے گی، مگر ایسا کرنا نہیں چاہیے۔

الفتاوى الهندية (1/ 69)
"(ومنها القراءة) وفرضها عند أبي حنيفة - رحمه الله - يتأدى بآية واحدة وإن كانت قصيرةً. كذا في المحيط. وفي الخلاصة: وهو الأصح. كذا في التتارخانية. والمكتفي بها مسيء، كذا في الوقاية. ثم عنده إذا قرأ آيةً قصيرةً هي كلمات أو كلمتان نحو قوله تعالى : ﴿ثم قتل كيف قدر﴾ [المدثر: 20] ﴿ثم نظر﴾ [المدثر: 21] يجوز بلا خلاف بين المشايخ".

الفتاوى الهندية (3/ 81):
"وَلَوْ قَرَأَ بَعْضَ السُّورَةِ فِي رَكْعَةٍ وَالْبَعْضَ فِي رَكْعَةٍ قِيلَ: يُكْرَهُ، وَقِيلَ: لَا يُكْرَهُ، وَهُوَ الصَّحِيحُ .كَذَا فِي الظَّهِيرِيَّةِ. وَلَكِنْ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَفْعَلَ، وَلَوْ فَعَلَ لَا بَأْسَ بِهِ .كَذَا فِي الْخُلَاصَةِ. وَلَوْ قَرَأَ بَعْضَ السُّورَةِ فِي رَكْعَةٍ وَالْبَعْضَ فِي رَكْعَةٍ قالوا: یکره؛ لأنه خلاف ما جاء به الأثر، وفي الغیاثیة: وکأنهم أرادوا بذلک سورةً قصیرةً،م: روي عن أصحابنا: أنه لا یکره، وفي الظهیریة : هو الصحیح، وفي الخلاصة: لا یکره، ولکن لا ینبغي أن یفعل". ( الفتاوی التاتارخانیة 451/1، إدارة القرآن)

3۔ غیروں کے طریقوں سے جس طرح خود بچنا ضروری ہے اسی طرح اس سے اپنے معاشرے  کے افراد خصوصاً  زیرِ تربیت بچوں کو بچانا اور اس سے دور رکھنا ضروری ہے، بچوں کی تربیت میں یہ  بھی داخل ہے کہ انہیں غیروں کی وضع قطع کے مفاسد اور اور شریعت میں ان کی ناپسندیدگی بتانے کے ساتھ ساتھ اسلامی وضع قطع کی اہمیت اور فضیلت بتائی جائے، اس کے لیے نرمی اور حکمت کا پہلو اختیار کیا جائے تو امید ہے کہ بچے ترغیب سے مان جائیں گے، اس کے باوجود نہ مانیں اور  بچوں پر سختی کرنے سے ان کے چھوڑ کر جانے کا خطرہ ہوتو  ان کے سرپرستوں کو بلا کر انہیں  سمجھایا جائے اور مسئلہ سے آگاہ کیا جائے ۔ بہرحال ایسا طریقہ کار ہرگز اختیار نہ کریں جس سے بچے تعلیم ہی چھوڑدیں، البتہ حکمت اور تدبیر سے اصلاح کی کوشش ضرور جاری رکھیں۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200284

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں