بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

پھوپھی کے شفقت سے گال پر بوسہ دینے اور گال سے گال ملانے کی وجہ سے شرم گاہ میں ہلکی سی انتشار کی کیفیت پیدا ہوجانے کی صورت میں اس پھوپھی کی بیٹی سے نکاح کا حکم


سوال

میری پھوپھی زاد بہن کے ساتھ میرے رشتے کی بات چل رہی تھی، اس دوران میں میں پھوپھی سے ملنے چلا گیا، ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ محرم کا بوسہ لیتے ہیں تو پھوپھی نے گال پر بوسہ دیا، اور ازروۓ شفقت اپنا گال میرے گال سے لگا دیا، جس سے میری  شرم گاہ میں تھوڑا سا انتشار پیدا ہوگیا جو بالکل ناگہانی اور غیر اختیاری صورت تھی، حال آں کہ میں اس کے بارے میں ایسا تصور بھی نہیں کرسکتا اور نہ میلانِ قلب اور شہوت کے بارے میں سوچ سکتا ہوں،  اس کے بعد میں بیٹھ گیا۔ از راہِ کرم اس مسئلے کو حل فرمائیں؛ کیوں کہ رشتہ نہ ہونے کی صورت میں قطع تعلق بھی ہو سکتا ہے!

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب سائل کی پھوپھی نے اسے گال پر بوسہ دیا اور از روئے شفقت اپنا گال سائل کے گال کے ساتھ لگالیا اور اس وقت انتشار کی کیفیت نہیں تھی، لیکن اس کے بعد انتشار کی کیفیت ہوگئی تو اس سے حرمتِ مصاہرت ثابت نہیں ہوئی، اور اگر گال پر بوسہ دینے کے دوران انتشار کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی تو حرمتِ مصاہرت ثابت ہوجائے گی اور پھوپھی زاد بہن سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا۔

وفي الدر المختار وحاشية ابن عابدين:

"والعبرة للشهوة عند المس والنظر لا بعدهما، وحدها فيهما تحرك آلته أو زيادته، به يفتى، وفي امرأة ونحو شيخ كبير تحرك قبله أو زيادته.

(قوله: والعبرة إلخ) قال في الفتح: وقوله: بشهوة في موضع الحال، فيفيد اشتراط الشهوة حال المس، فلو مس بغير شهوة، ثم اشتهى عن ذلك المس لاتحرم عليه. اهـ

وكذلك في النظر كما في البحر، فلو اشتهى بعد ما غض بصره لاتحرم.

قلت: ويشترط وقوع الشهوة عليها لا على غيرها؛ لما في الفيض: لو نظر إلى فرج بنته بلا شهوة، فتمنى جاريةً مثلها فوقعت له الشهوة على البنت تثبت الحرمة، وإن وقعت على من تمناها فلا. (قوله: وحدها فيهما) أي حد الشهوة في المس والنظر ح (قوله: أو زيادته) أي زيادة التحرك إن كان موجوداً قبلهما (قوله: به يفتى) وقيل: حدها أن يشتهي بقلبه إن لم يكن مشتهياً أو يزداد إن كان مشتهياً، ولايشترط تحرك الآلة، وصححه في المحيط والتحفة، وفي غاية البيان: وعليه الاعتماد، والمذهب الأول، بحر. قال في الفتح: وفرع عليه ما لوانتشر وطلب امرأةً فأولج بين فخذي بنتها خطأً لاتحرم أمها ما لم يزدد الانتشار". (3/33، ط: سعيد)  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144012200576

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں